فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیس: فل کورٹ بنانے کی حکومتی استدعا مسترد

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر  وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔

  فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔

 چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

سماعت کا آغاز  ہوا تو  درخواست گزار صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کا کہنا تھا کہ میں نے تحریری جواب جمع کرادیا ہے، میں سپریم کورٹ بار  ایسوسی ایشن کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا میں عدالت کی توجہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر دلانا چاہتا ہوں، آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کا ٹرائل نہیں ہوسکتا، جسٹس اجمل میاں کے فیصلے میں سیکشن 8  ٹوکا حوالہ دیا گیا ہے، فیصلے میں کہا گیا کہ  آرمی ایکٹ کے تحت  ٹرائل صرف  افواج کے اہلکاروں کا ہوسکتا ہے، فیصلےمیں کہا گیا کہ  آرمی ایکٹ کے تحت سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہوگی۔

وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا کہ  21 ویں آئینی ترمیم کیس فیصلے میں ہےکہ ایسا قانون لاگو نہیں ہوسکتا جس سے بنیادی حقوق معطل ہوں، جسٹس فائز عیسیٰ نے قرار دیا کہ فوجی عدالتیں سویلین کے ٹرائل کی آئینی عدالتیں نہیں، میری درخواست میں آرٹیکل 245  کے تحت افواج طلب کرنے کا معاملہ بھی ہے، عدالت نےایف بی علی کیس میں سویلین کے آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل پر لکھا، عدالت نےکہا کہ سویلین دفاعی معاملات میں ملوث نکلے تو آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہوسکتا ہے، 21 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں  پر فیصلے میں فوجی عدالتوں سے سزاؤں پر جوڈیشل ریویو کی اجازت تھی، بنیادی نکتہ یہ ہےکہ جو الزامات ہیں  ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائےگا۔

وفاقی حکومت کی فل کورٹ تشکیل دینےکی استدعا

وفاقی حکومت نےگزشتہ روز  سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اپنا جواب جمع کرا دیا تھا جس میں  وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی ہے۔

31 صفحات پرمشتمل جواب اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کروایا گیا ہے جس میں فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں ناقابل سماعت قرار دینے کی استدعابھی کی گئی ہے۔

وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا ہےکہ درخواست گزار   ہائی کورٹس سے رجوع کرسکتے ہیں، آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ آئین پاکستان سے پہلے سے موجود ہیں، ان دونوں ایکٹ کو آج تک چیلنج نہیں کیا گیا، آرمی اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیے گئے اقدامات قانون کے مطابق درست ہیں، سپریم کورٹ براہ راست اس کیس کو نہ سنے، فوجی عدالتوں کے خلاف کیس فل کورٹ کو سننا چاہیے۔

وفاقی حکومت کا موقف ہےکہ کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی بھی فل کورٹ بنانے کی رائے دے چکے ہیں،9 مئی کو فوجی تنصیبات کو منظم انداز میں نشانہ بنایا گیا، 9 مئی کے واقعات میں منصوبہ بندی سے مسلح افواج کو نشانہ بنایا گیا، 9 مئی کو صرف پنجاب میں 62 واقعات ہوئے،کور کمانڈر ہاؤس لاہور اور جی ایچ کیو کو نشانہ بنایا گیا، پی اے ایف میانوالی اور آئی ایس آئی فیصل آباد آفس کو بھی نشانہ بنایا گیا، ان حملوں میں 2 ارب 53 کروڑ 91لاکھ سے زائد کا نقصان ہوا، فوجی تنصیبات کو1 ارب 98 کروڑ 29 لاکھ سے زائد کا نقصان ہوا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ دفاعی تنصیبات اور فوجی دفاترپر حملہ براہ راست قومی سلامتی کا معاملہ ہے، غیرملکی طاقتیں پاکستان کی قومی سلامتی اور فوج کو کمزور کرنا چاہتی ہیں، کلبھوشن جادھو اور شکیل آفریدی کے واقعات اس بات کے ثبوت ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں