فارن فنڈنگ کیس: دوہری شہریت رکھنے والے سیاسی جماعتوں کو فنڈ دے سکتے ہیں، پی ٹی آئی وکیل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس کی سماعت میں پارٹی کے وکیل نے مؤقف اپنایا ہے کہ قانون کے تحت دوہری شہریت والوں کو سیاسی جماعتوں کو فنڈ دینے کی اجازت ہے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کے غیر ملکی فنڈنگ کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے ای سی پی کے خلاف اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ مکمل طور پر فعال نہیں ہے کیونکہ یہ اپنے 2 ارکان کے بغیر کام کر رہا ہے جو 2019 میں ریٹائر ہوئے تھے۔

انہوں نے آئین کے آرٹیکل 218 کا بھی حوالہ دیا جس میں ایک مستقل الیکشن کمیشن کی تشکیل کی شرط رکھی گئی ہے جس میں ہر صوبے سے ایک چیئرمین اور 4 اراکین ہوں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی قانون کے مطابق دوہری شہریت رکھنے والے سیاسی جماعتوں کو فنڈ دے سکتے ہیں۔

وکیل انور منصور نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن مکمل فعال نہیں ہے، یہ میرا اعتراض ہے اس کو پوائنٹ آؤٹ کر لیا جائے۔

انور منصور نے آئین کے آرٹیکل 218 کا حوالہ دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن اس پر آرڈر جاری نہیں کر سکتا، کمیشن مکمل موجود ہونا چاہیے، اس کے الگ بینچز یا بینچ بن سکتے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ جو عدالتی حکم 30 روز کا آیا اس پر کیا کہیں گے؟ اس پر انور منصور نے کہا کہ میں دلائل کا آغاز کروں گا۔

پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور کا مؤقف تھا کہ اسکروٹنی کمیٹی نے پاکستانی اور بھارتی قوانین کا تقابلی جائزہ لیا، بھارت میں کوئی شہری دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا۔

انور منصور نے کہا کہ اسکروٹنی کمیٹی نے اکبر ایس بابر کے فراہم کردہ دستاویزات کو درست قرار نہیں دیا، اکبر ایس بابر دستاویزات لہرا کر سیاق و سباق سے ہٹ کر گفتگو کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے معاون وکیل اکاؤنٹس کے معاملے پر کمیشن کی معاونت کریں گے، 3 دن درکار ہیں دلائل مکمل کر لوں گا، گزشتہ سماعت پر ہی آگاہ کیا تھا کہ 20 اپریل سے دستیاب نہیں ہوں۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اگلے ہفتے مسلسل 3 دن سماعت کریں گے، بعد ازاں الیکشن کمیشن نے مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس کو 30 روز میں نمٹانے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کا آغاز آج سے ہوگیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ حکم اس وقت جاری کیا جب اس نے الیکشن کمیشن کے حکم کے خلاف پی ٹی آئی کی دو درخواستوں کو مسترد کردیا تھا، الیکشن کمیشن نے غیر ملکی فنڈنگ کیس کو خارج اور اس کے درخواست گزار اکبر ایس بابر کو مقدمے سے الگ اور پی ٹی آئی کی دستاویزات کو خفیہ رکھنے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایک ماہ میں کیس کو ختم کرنے کی ہدایت کرنے کے علاوہ تفصیلی حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن کمیشن پر آرٹیکل 17 (3) کے مطابق تفویض کردہ ڈیوٹی کے مینڈیٹ تک پہنچنے کے لیے انکوائری، تفتیش، جانچ پڑتال کے کسی بھی عمل کو اپنانے پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی، اگر اس کو پی پی او 2002 کی فعال دفعات کے ساتھ پڑھیں تو اگر پارٹی کی کوئی فنڈنگ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کی گئی ہو تو اس سے اس کے چیئرمین سمیت ایسی سیاسی جماعت کی ساکھ متاثر ہوگی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اسکروٹنی کمیٹی کی مرتب کردہ ایک رپورٹ 4 جنوری کو سامنے آئی تھی جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈز حاصل کیے، کم فنڈز ظاہر کیے اور اپنے درجنوں بینک اکاؤنٹس مخفی رکھے۔

خیال رہے پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کا کیس 14 نومبر 2014 سے زیر التوا ہے، کیس پی ٹی آئی کے منحرف اکبر بابر نے دائر کیا تھا، انہوں نے پارٹی پر پاکستان اور بیرون ملک سے فنڈنگ میں سنگین مالی بے ضابطگیوں کا الزام لگایا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں