غزہ کشیدگی: 40 ہلاک، اسرائیلی فضائی حملوں میں 200 سے زائد زخمی

غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فضائی حملوں میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ حماس کے عسکریت پسندوں کی جانب سے منگل اور بدھ کی صبح اسرائیلی اہداف پر راکٹ حملے کیے گئے ہیں۔

کے نیوز کے مطابق یہ 2014 کے بعد سے دونوں دشمنوں کے درمیان سب سے شدید لڑائی ہے اور اس میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔

وزارت صحت کے مطابق غزہ میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 35 تک بڑھ گئی ہے جن میں 10 بچے بھی شامل ہیں۔

منگل اور بدھ کی صبح داغے گئے راکٹ کے نتیجے میں پانچ اسرائیلی جن میں تین خواتین اور ایک بچہ شامل ہے، ہلاک ہوئے اور درجنوں افراد زخمی ہوئے۔

اسرائیل  نے منگل کی رات کو حملے کرتے ہوئے حماس کے عسکریت پسندوں کے زیر استعمال بلند عمارت کو نشانہ بنایا اور فلسطینی راکٹوں سے جنوبی اسرائیلی شہر اشکیلون پر بمباری کی گئی۔

اسرائیل نے کشیدگی کم کرانے کے لیے مصر کی پیشکش نظر انداز کر دی

اسرائیل نے مصر کی جانب سے کشیدگی کم کرانے کی پیشکش کو نظر انداز کر دیا ہے۔

مصر نے اسرائیل اور تشویش کا شکار دیگر ممالک سے رابطہ کرتے ہوئے انہیں صورتحال کو بگڑنے سے روکنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے پر زور دیا تھا۔

جوناتھن کونریکس کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کی سرحد پر اپنی فوسز کی تعداد بڑھا رہا ہے (فوٹو: روئٹرز)

مصر کے وزیر خارجہ سماح شکری نے کہا ہے کہ ’ہمیں ضروری جواب نہیں ملا۔‘ اس کےبجائے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ میں ہلاکتوں میں مزید اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

’حملوں کی طاقت اور شدت کو بڑھایا جائے گا۔‘ اسرائیل کی دفاعی فورسز کے ترجمان جوناتھن کونریکس کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کی سرحد پر اپنی فوسز کی تعداد بڑھا رہا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے دونوں فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

عرب لیگ کے چیف احمد ابو الغیظ کا کہنا ہے کہ ’غزہ پر حملے بچوں پر طاقت کے  افسوسناک استعمال کا مظاہرہ ہیں اور اسرائیل کی اشتعال انگیزیاں عید کی چھٹی کے موقع پر مسلمانوں کے لیے جارحانہ عمل ہے۔‘

اسلامی تعاون کی تنظیم جس نے جدہ میں ہنگامی اجلاس بلایا تھا، نے  ’یروشلم کے مقبوضہ شہر میں فلسطینی عوام کی ثابت قدمی کو سراہا‘ ہے۔

گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کم سے کم  28 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

راکٹوں اور فضائی حملوں کا آغاز فلسطینی شہریوں اور اسرائیلی سکورٹی فورسز کے درمیان کئی گھنٹوں کی جھڑپوں کے بعد ہوا۔ ان میں مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے مقدس مسجد اقصیٰ کے احاطے میں ہونے والی جھڑپیں بھی شامل ہیں۔

موجودہ تشدد کا آغاز بھی پچھلے انتفاضہ یا بغاوت کی طرح یروشلم پر متضاد دعووں کی وجہ سے ہوا ہے، جو طویل تنازع کا جذباتی مرکز ہے۔

بڑھتی ہوئی بدامنی کی علامت کے طور پر پورے اسرائیل میں موجود عرب کمیونٹیوں کے سینکڑوں باشندوں نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے حالیہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے راتوں رات مظاہرے کیے

اپنا تبصرہ بھیجیں