عمران خان کو پکڑنا پانچ منٹ سے زیادہ کا کام نہیں لیکن ریاست خون خرابا نہیں چاہتی، مریم نواز

مسلم لیگ(ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے کہا عمران خان کو پکڑنا پانچ منٹ سے زیادہ کا کام نہیں لیکن ریاست نہیں چاہتی کہ کوئی خون خرابا ہو، اگر ریاست کسی کو پکڑنا چاہے تو یہ پانچ منٹ سے زیادہ کا کام نہیں ہوتا، آپ ریاست سے جیت نہیں سکتے کیونکہ اور اس کے پاس پوری طاقت موجود ہے۔

کوئی پولیس کا افسر یا جوان جان سےہاتھ دھو بیٹھے یا کسی کارکن کی جان جائے چاہے وہ پی ٹی آئی کا ہی کیوں نہ ہو، اگر یہ سب عوامل پیش نظر نہ ہوں تو عمران خان کو پکڑنا پانچ منٹ سے زیادہ کا کام نہیں۔

مریم نواز نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے سیاستدان مقصد کے لیے پھانسی کا پھندا بھی قبول کرتے ہیں، شہادتیں بھی قبول کرتے ہیں، گولیاں بھی کھاتے ہیں، جلاوطنی بھی برداشت کرتے ہیں اور جھوٹے مقدمات میں عمر قید بھی برداشت کرتے ہیں لیکن یہ پاکستان کے 75سال میں پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ ایک ایسی جماعت جو خود کو سیاسی جماعت کہتی ہے، ایک انسان جو خود کو سیاسی لیڈر کہتا ہے اور سیاسی جماعتوں سے مقابلہ کرتا ہے، اس نے پچھلے پانچ دن سے زمان پارک میں جو حرکتیں شروع کی ہوئی ہیں، میں نے وہ کبھی نہیں دیکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنی جان بچانے، گرفتاری سے روکنے، قانون کے آگے پیش ہونے سے روکنے کے لیے انہوں نے جس طرح ریاست پر دھاوا بولا، جس طرح سے انہوں نے پنجاب کی سیکیورٹی فورسز پر حملہ کیا، ریاست پر حملہ کیا اس کے مناظر گزشتہ پانچ دن سے ہم ٹی وی اسکرین پر دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ریاست کے خلاف کھلے عام بغاوت ہوئی ہے اور یہ آج سے نہیں ہو رہا بلکہ 2014 سے یہی سب کچھ ہو رہا ہے، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے شاہراہ دستور پر قبریں کھودیں، کفن پہن کر ریاست کا مذاق اڑایا، جنہوں نے پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ کیا، پولیس افسران کے سر پھاڑے، ڈی ایس پی جونیجو کی ہڈیاں توڑنے کے مناطر قوم آج تک نہیں بھولی۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان جب یہ جلاؤ گھیراؤ کررہا تھا تو جسٹس ثقاقب نثار اسے صداقت اور امانت کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے تھے اور اس وقت جب نواز شریف کے خلاف پاناما کا مقدمہ چل رہا تھا تو یہ اشتہاری ملزم ہوتے ہوئے بھی روز عدالت میں پیش ہوتے تھے پاناما بینچ کے سربراہ جسٹس کھوسہ کو توفیق نہیں ہوئی کہ اشتہاری ملزم کی روز پیشی کے باوجود گرفتاری کا حکم دیتے۔

انہوں نے کہا کہ پاناما میں آپ نے نواز شریف کو سیسیلین مافیا، گاڈ فادر اور ڈان جیسے القابات سے نواز رہے تھے، آج میں جسٹس کھوسہ اور پاناما بینچ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ لاہور میں جو آپ مناظر دیکھ رہے ہیں تو آپ کو پتہ چلا کہ سیسیلین مافیا کیا ہوتا ہے، ڈان کیا ہوتا ہے، پورے پاکستان کی پولیس ڈان کو پکڑنے کی کوشش کررہی ہے، عدالتیں لا رہی ہیں لیکن وہ شخص کسی کے ہاتھ نہیں آ رہا اب پتہ چلا ڈان کیا ہوتا ہے، گاڈ فادر کیا ہوتا ہے، اچھے سے پتہ چل گیا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2014 سے جو ہو رہا ہے وہ آج اس لیے سامنے آ رہا ہے کیونکہ آج وہ سہولت کار زیادہ تر گھر جا چکے ہیں، ان کی باقیات موجود ہے جو ان کو سہولت فراہم کررہی ہے لیکن اصل بیساکھیاں چلی گئیں اسی لیے آپ کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔

مریم نواز نے کہا کہ یہی سب کچھ 2014 میں بھی ہو رہا تھا لیکن اس وقت امپائر نے انگلی پکڑائی ہوئی تھی اور انہوں ن پکڑی ہوئی تھی اس لیے اس سب کے باوجود اس کو صداقت اور امانت کے جھوٹے سرٹیفکیت دیے گئے، آج آپ دیکھ رہے ہیں وہ بگڑا ہوا بچہ ریاست پر پوری قوت سے حملہ آور ہے اور ایک بات میں بتا دوں کہ اگر ریاست کسی کو پکڑنا چاہے تو یہ پانچ منٹ سے زیادہ کا کام نہیں ہوتا، آپ ریاست سے جیت نہیں سکتے اور اس کے پاس پوری طاقت موجود ہے لیکن فرق صرف یہ ہے کہ ریاست نہیں چاہتی کہ کوئی خون خرابا ہو، کوئی پولیس کا افسر یا جوان جان سےہاتھ دھو بیٹھے یا کسی کارکن کی جان جائے چاہے وہ پی ٹی آئی کا ہی کیوں نہ ہو، اگر یہ سب عوامل پیش نظر نہ ہوں تو عمران خان کو پکڑنا پانچ منٹ سے زیادہ کا کام نہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج جو رحیم یار خان میں کچے کے علاقے میں جو ہو رہا ہےاور جو زمان پارک میں ہو رہا ہے اس میں کیا فرق ہے، کچے کے علاقے میں بھی جب پولیس ڈاکوؤں کو، ڈکیتو کو، اٖغوا کاروں کو پکڑنے جاتی ہے تو وہ ہتھیاروں سے لیس ہو کر پولیس پر حملہ آور ہوتے ہیں، پولیس پر پوری قوت سے پیچھے دھکیلتے ہیں، زمان پارک میں بھی یہی ہو رہا ہے جو کچے میں ہو رہا ہے، وہاں پر بھی ایک شخص بنکر میں حفاظتی تحویل میں چھپا بیٹھا ہےاور وہاں سے اپنے اپنے ورکرزکے ذریعے، دہشت گردوں کے ذریعے، کالعدم تنظیموں کے اراکین کے ذریعے وہ پوری قوت سے ریاست پر حملہ آور ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں عمران خان کی حکومت آئی تو اسی طرح کا حملہ اس نے پاکستان کی معیشت پر کیا، بارودی سرنگیں بچھائیں جس کا خمیازہ آج تک پاکستان بھگت رہا ہے، جس کے اثرات پاکستان میں آج تک ہیں اور اس سے نجات حاصل نہیں کر سکا، جب اس کو پتہ چلا کہ یہ حکومت سے جا رہا ہے تو یہ سائفر والی کہانی بنا کر لے آیا اور ہر جلسے میں وہ سائفر والا پرچہ چلایا، پاکستان کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات مشکل میں ڈال کر خود یہ ہاتھ جوڑ کر امریکا سے تعلقات کی بہتری کی کوشش کررہا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں