عمران خان کا دورہ چین: مقصد اظہار یکجہتی یا معیشت

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان چار روزہ دورے پر آج جمعرات کو چین پہنچ گئے ہیں جہاں وہ سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت اور چینی رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ البتہ چند حلقوں کی رائے میں دورے کے اصل مقاصد کچھ اور ہیں۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ خان کا دورہ دونوں ممالک کے مابین اسٹریٹیجک تعاون کو مزید تقویت بخشے گا۔ اس کے علاوہ مستقبل میں چین اور پاکستان کے رشتے کو مزید مستحکم بنانے کے ہدف تک پہنچنے میں بھی مدد فراہم کرے گا۔

پاکستانی وزیر اعظم کا یہ قریب دو سالوں میں چین کا پہلا دورہ ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بقول دورے کا ایک مقصد اپنے قریبی اتحادی ملک کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی ہے کیونکہ چند ملکوں نے سرمائی اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔البتہ چند حلقوں کی رائے میں دورے کے اصل مقاصد کچھ اور ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اسلام آباد حکومت چین سے تین بلین ڈالر قرض اور چھ شعبوں میں چینی سرمایہ کاری کی خواہاں ہے۔ چین، امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ ایک مقامی روزنامے نے چند روز قبل رپورٹ کیا تھا کہ حکومت چین سے مزید تین بلین ڈالر کا قرضہ منظور کرنے کی درخواست پر غور کر رہی ہے، جسے چین کی اسٹیٹ ایڈمنسٹریشن آف فارن ایکسچینج (SAFE) میں رکھا جا سکتا ہے تاکہ اس سے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے۔

چھ شعبوں میں چینی سرمایہ کاری درکار

اسلام آباد حکومت ٹیکسٹائل، فٹ ویئر، فارماسیوٹیکل، فرنیچر، زراعت، آٹوموبائل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعتوں میں چینی سرمایہ کاری کی خواہاں ہے۔

پاکستان اقتصادی امداد اور تعاون کے لیے چین پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ کمیونسٹ ملک چین اقتصادی راہداری کے منصوباں کے تحت پہلے ہی اربوں ڈالر پاکستان میں لگا چکا ہے۔

ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی کا خیال ہے کہ پاکستان اب مالی اور اقتصادی امداد کے لیے چین پر 100 فیصد انحصار کر رہا ہے۔ انہوں نےمیڈیا کو بتایا کہ عمران خان کے دورے کا مقصد بیجنگ سے قرض حاصل کرنا ہے، جو چین پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے انحصار کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرض کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کو عام کیا جاتا ہے، تاہم چین قرضوں اور منصوبوں کی شرائط و ضوابط کو خفیہ رکھتا ہے اور اسی سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔

پاکستان کے مغربی صوبے بلوچستان میں بہت سے قوم پرست چینی سرمایہ کاری پر شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منصوبوں سے ان کے خطے کو فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ کچھ بلوچ قوم پرستوں کو خدشہ ہے کہ اگر پاکستان نے قرضے ادا نہیں کیے تو چین معدنیات سے مالا مال صوبے میں کان کنی کے ٹھیکے انتہائی رعایتی شرح پر حاصل کرے گا یا ممکنہ طور پر بندرگاہ پر قبضہ کر لے گا۔ قیصر بنگالی نے کہا کہ اس طرح کے شکوک چینی ترقیاتی منصوبوں اور قرضوں کی شرائط کے بارے میں راز داری کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔

پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات سن 1990 کی دہائی کے دوران کچھ کشیدہ رہے لیکن 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد یہ ملک دوبارہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں واشنگٹن کا اتحادی بن گیا۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد جنوبی ایشیائی ملک پاکستان اب اسٹریٹجک اتحاد کے لیے مشرق کی طرف دیکھ رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں