سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب پولیس کو سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر سربراہی 5 رکنی بینچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی جس میں سابق وزیر اعظم کے وکیل سلمان اکرم راجا پیش ہوئے
سماعت کے دوران سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے مؤکل پر حملہ ہوا ہے جس کا مقدمہ درج نہیں ہو سکا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جمعرات کو تکلیف دہ مسئلہ ہوا، مزید وقت دینے کی استدعا درست لگی ہے۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عمران خان کا جواب تیار ہے، عدالت کہے تو جواب جمع کروا سکتا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 90 گھنٹے گزر گئے لیکن مقدمہ درج نہیں ہوا، اس کے بغیر تفتیش کیسے ہوگی؟ ایف آئی آر کے بغیر تو شواہد تبدیل ہوسکتے ہیں۔
اس دوران عدالت کی جانب سے طلبی پر لاہور رجسٹری سے آئی جی پولیس فیصل شاہکار ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کو ایف آئی آر پر تحفظات ہیں، آئی جی پنجاب
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آئی جی پنجاب فیصل شاہکار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ ہوا ہے، آپ بتائیں اب تک ایف آئی آر کیوں داخل نہیں ہوئی، ہمیں وقت بتائیں کب تک ایف آئی آر درج کریں گے؟
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم نے واقعے کی ایف آئی آر درج کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب سے بات کی، انہوں نے کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک شخص کی واقعے میں شہادت ہوئی ہے، اس واقعے کی بھی لواحقین کی شکایت پر ایف آئی آر درج ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مقدمہ درج نہ ہونے کی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے، قانون کے مطابق کام کریں، عدالت آپ کے ساتھ ہے، آپ افسران سے تفتیش کروائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی صاحب! جب تک آپ عہدے پر ہیں کوئی آپ کے کام میں مداخلت نہیں کرے گا، آپ کے کام میں کسی نے مداخلت کی تو عدالت اس کے کام میں مداخلت کرے گی۔
انہوں نے آئی جی پنجاب فیصل شاہکار کو 24 گھنٹوں میں حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر مقدمہ درج نہ ہوا ازخود نوٹس لیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے سلمان اکرم راجا کو ایک ہفتے تک جواب جمع کرانے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
پس منظر
خیال رہے کہ 3 نومبر کو پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران عمران خان پر حملہ ہوا تھا، تاہم اس واقعے کی ایف آئی آر تاحال درج نہیں کی گئی۔
پی ٹی آئی، پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے میں مبینہ ہچکچاہٹ پر سوالات اٹھا رہی ہے جبکہ پولیس، پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اب تک ایف آئی آر درج کرنے کی کوئی درخواست موصول ہونے سے انکار کر رہی ہے۔
سابق وزیر اعظم کی جانب سے ایک اعلیٰ فوجی افسر، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے اصرار پر پنجاب کی حکمراں اتحادی جماعتوں (پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق) کے درمیان ڈیڈلاک برقرار ہے۔
عمران خان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ جن 3 لوگوں پر انہوں نے اپنے قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا ہے ان تینوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج نہیں کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ جب تک وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور ایک اعلیٰ فوجی افسر مستعفی نہیں ہوتے اس وقت تک شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتی۔
شاہ محمود قریشی نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کے حوالے سے کچھ لوگ بے بس دکھائی دیتے ہیں، سابق وزیراعظم پر حملہ ہوا اور تھانہ لیت و لعل سے کام لے رہا ہے، اگر آئی جی پنجاب، عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج نہیں کرا سکتے تو عہدہ چھوڑ دیں۔
اس دوران یہ افواہیں بھی گرم ہوئیں کہ ایف آئی آر کے اندراج میں ہچکچاہٹ پر صوبائی حکومت انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) فیصل شاہکار کا تبادلہ کرنے جارہی ہے۔
گزشتہ روز فیصل شاہکار نے عہدہ چھوڑنے سے متعلق وفاق کو خط لکھ دیا جس میں انہوں نے لکھا کہ ذاتی وجوہات کی بنیاد پر کام جاری نہیں رکھ سکتا۔
ذرائع کے مطابق فیصل شاہکار نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو آگاہ کیا کہ عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر پر بلاجواز تنقید اور اس کے بعد شاہ محمود قریشی کے نفرت انگیز ریمارکس محکمہ پولیس کے لیے ناقابل قبول ہیں۔
واضح رہے کہ وزارت داخلہ نے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر عمران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، اس درخواست میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کو لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف جہاد کے نام پر امن و امان کی صورت حال بگاڑنے سے روکنے کا حکم بھی
طلب کیا تھا۔