اسلام آباد: ایک انٹیلی جنس ایجنسی نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ 9؍ اور 10؍ مئی کے دن جو کچھ ہوا اس کا خیال اور پلاننگ بہت عرصہ پہلے ہی ہوئی تھی اور اس میں عمران خان مبینہ طور پر ملوث تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے زیادہ تر رہنماؤں کو مبینہ پلان کا علم ہی نہیں تھا، اسے خفیہ رکھا گیا تھا اور صرف چند قابل بھروسہ وفاداروں (جن کے نام رپورٹ میں موجود ہیں) کو اس کا علم تھا اور یہی وہ افراد تھے جنہوں نے عمران خان کی ہدایات پارٹی کے دیگر حلقوں تک پہنچائی۔
انٹیلی جنس ایجنسی نے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان نے خصوصی طور پر ہدایات دی تھیں کہ ان کی گرفتاری کی صورت میں پہلے سے طے شدہ مقامات اور جگہوں کو ہدف بنایا جائے۔
9؍ مئی کو مراد سعید نے یہ بات پارٹی کے رہنماؤں کو اپنی ٹوئیٹس کے ذریعے بتائی اور ہدایت کی کہ بتائے گئے مقامات پر مظاہرے شروع کیے جائیں۔
عمران خان نے متعدد مرتبہ خود اپنی اور اپنی پارٹی کی 9؍ مئی کے واقعات سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ اس کی بجائے انہوں نے اصرار کیا ہے کہ پی ٹی آئی نے ماضی میں بھی پرسکون مظاہرے کیے ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ تباہی کے پیچھے ایجنسیاں ملوث تھیں اور اس کا مقصد پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرانا تھا۔ عمران خان نے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی آزاد انکوائری کرائی جائے تا کہ 9؍ مئی کے دن کے واقعات کے حوالے سے حقائق سامنے آئیں۔
دی نیوز نے پی ٹی آئی کے ترجمان صداقت عباسی سے رابطہ کرکے ان سے انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ پر مؤقف معلوم کیا۔ عباسی نے دو ٹوک الفاظ میں انکار کیا کہ 9؍ مئی کے واقعات پہلے سے طے شدہ تھے یا عمران خان نے ایسی کوئی ہدایات دی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ پی ٹی آئی کے راولپنڈی ریجن کے اہم رہنما ہیں اور اس لحاظ سے واضح کرتے ہیں کہ ایسی کوئی ہدایات ان تک نہیں پہنچائی گئی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر پرسکون مظاہرہ کیا گیا تھا۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے 9؍ کے واقعات میں اپنے کارکنوں کو اشتعال دلانے کے حوالے سے عمران خان کا نام لیا ہے۔ انٹیلی جنس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسد عمر، مراد سعید اور اعظم سواتی عمران خان کے قریبی ساتھی ہیں، ساتھ ہی یاسمین راشد، حماد اظہر اور عون عباس بپی کا نام پنجاب، مراد سعید اور عمر ایوب کا نام کے پی جبکہ علی زید کا نام سندھ، علی نواز اعوان اسلام آباد اور قاسم سوری کا نام بلوچستان میں پیش آنے والے واقعات میں شامل کیا ہے۔
انٹیلی جنس ایجنسی کے مطابق اقتدار سے نکال باہر کیے جانے کے بعد سے عمران خان نے ایک جارحانہ لیکن جعلی بیانیہ بنانے کی کوشش کی اور کئی سازشی نظریات پیش کیے جن میں عالمی گٹھ جوڑ سے لیکر انٹیلی جنس ایجنسی کے ہاتھوں اپنے قتل کے منصوبوں کا ذکر جیسی باتیں شامل ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ عمران خان نے اپنے حامیوں کے ذہنوں میں اس قدر زہر انڈیل دیا تھا کہ ان لوگوں نے کھل کر فوج اور اس کی سینئر قیادت کی توہین کی، مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کیے۔ یہ عمران خان کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کی مدد سے عوام کو اپنی ہی فوج سے لڑانے کی تیاری کی گئی۔
ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اپنے اشتعال انگیز خطبات کی مدد سے عمران خان نے سوچے سمجھے انداز سے فوج کے سینئر عہدیداروں بشمول آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی سی وغیرہ پر الزامات عائد کیے حتیٰ کہ کچھ موقعے ایسے بھی تھے جن پر عمران خان نے نام لیکر الزامات عائد کیے۔
ایجنسی نے یہ بھی بتایا ہے کہ عمران خان اس قدر مایوس ہو چکے تھے کہ راولپنڈی میں 6؍ مئی کی ریلی کے حوالے سے پی ٹی آئی کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے ہونیوالے اجلاس میں انہوں نے ریلی کچہری چوک (آرمی ہاؤس کے قریب) کنٹونمنٹ ایریا پر ختم کرنے کی بجائے مریر چوک پر ختم کرنے کی وجہ سے پی ٹی آئی راولپنڈی چیپٹر کو سختی سے ڈانٹا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان جانتے تھے کہ پارٹی کی اول اور دوسرے درجے کی قیادت ان کی گرفتاری کی صورت میں پرتشدد مظاہرے نہیں کرے گی، انہوں نے ایک میکنزم تشکیل دیا تاکہ صرف اپنے قابل بھروسہ وفاداروں کے ساتھ رابطہ ایپ اور عمران ٹائیگرز ڈاٹ کام جیسے آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے رابطے میں رہیں جن میں عمران ٹائیگرز اور آئی ایس ایف کارکن شامل تھے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عمران خان نے یونین کونسل کی سطح تک پارٹی کی تنظیم کی تھی تاکہ پارٹی کی صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکے اور کارکنوں فوری طور پر متحرک کیا جاسکے۔
انہوں نے اپنے کارکنوں سے وفاداری کا حلف لیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور ہر حال میں ان کی ہدایت پر عمل کریں گے۔ عمران خان کو توقع تھی کہ عوام بڑی تعداد میں پرتشدد مظاہرے کریں گے۔ انہیں ان کے کچھ مشیروں نے یہ یقین کرنے پر مجبور کردیا تھا کہ ملک میں ہر جگہ افرا تفری پھیل جائے گی اور حکومت بشمول فوجی قیادت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گی اور اپنی شرائط منوائی جا سکیں گی۔
فوج کی جانب سے تحمل کے مظاہرے نے انہیں بے خوف کر دیا اور وہ غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ فوج کمزور ہو چکی ہے اور ان کے دباؤ کا سامنا نہیں کر سکتی، انہیں یہ تاثر بھی دیا گیا تھا کہ جیسے ہی عوام فوجی تنصیبات اور اہم مقامات پر جمع ہوں گے تو فوج اندر سے بھی ہلچل کا شکار ہو جائے گی۔
انٹیلی جنس ایجنسی نے اس صورتحال میں عالمی پہلو کا بھی ذکر کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مغربی ممالک کے زلمے خلیل زاد جیسے ترجمانوں نے امریکا کی ڈیپ اسٹیٹ کی مدد سے عمران خان کیلئے مہم چلائی۔ کچھ آزاد مبصرین نے اس تمام تر صورتحال کو آئی ایم ایف کے موجودہ اقدامات سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ کچھ انٹرنیشنل کھلاڑی چاہتے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے اور ملک میں افراتفری پھیل جائے۔