وزیر اعلیٰ پنجاب نے عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی سے مکمل طور پر ہمیشہ فاصلہ رکھا ہے تاکہ تحقیقات کے نتائج تحریک انصاف کی قیادت کی توقعات کے مطابق نہ آنے کی صورت میں وہ خود کو اتحادی جماعت پی ٹی آئی کے الزامات سے بچا سکیں۔
باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل تک جے آئی ٹی کی معاونت کرنے والوں تک، وزیر اعلیٰ پنجاب نے کسی بھی معاملے میں مداخلت نہیں کی اور پی ٹی آئی رہنماؤں کو اپنی پسند کے جے آئی ٹی ارکان لگانے کی اجازت دی ہے۔
روزِ اول سے لے کر وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی عمران خان کی جانب سے قاتلانہ حملے میں نامزد کیے جانے والے افراد کے ناموں سے متفق نہیں تھے۔ ق لیگ کے ایک ذریعے سے جب رابطہ کیا گیا تو وہ پی ٹی آئی کے ’’سازشی نظریات‘‘ سے پریشان نظر آئے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں، یہ لوگ خود کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ عوام میں مقبولیت کے باوجود پی ٹی آئی خود کو نقصان پہنچانے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے جمعرات کو بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھا اور کچھ ’’طاقتور‘‘ لوگوں کو خود پر حملے کا ذمے دار قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ طاقتور لوگ بھی وزیر آباد حملے کی منصفانہ تحقیقات میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کی توجہ اب جے آئی ٹی کی رپورٹ پر مرکوز ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ حملے میں تین ہتھیار استعمال ہوئے تاہم، وفاقی ایجنسیوں کو جے آئی ٹی کی رپورٹ مصدقہ معلوم نہیں ہوتی۔
پی ٹی آئی قیادت کا اصرار ہے کہ قاتلانہ حملہ تین حملہ آوروں نے کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے محافظوں نے کوئی فائر نہیں کیا۔ یہ لوگ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جائے وقوع سے 14 گولیاں برآمد ہوئیں، 12 ایک جگہ سے، 2 دوسری جگہ سے جب کہ جائے وقوع سے مخالف سمت میں موجود ایک عمارت سے 9 گولیاں برآمد ہوئیں جن میں سے 7 ایک جگہ سے جبکہ 2؍ دوسری جگہ سے ملی ہیں۔
پی ٹی آئی کے مؤقف کے برعکس، انٹیلی جنس بیورو نے وفاقی حکومت کو حملے کے چند ہفتوں بعد جمع کرائی گئی اپنی رپورٹ میں کسی سازش کا ذکر نہیں کیا اور کہا ہے کہ یہ تنہا حملہ آور کا کام تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پستول سے فائرنگ کے بعد سیکیورٹی مقاصد کے لیے تعینات کچھ لوگوں نے ایس ایم جی سے فائرنگ کی۔
وہاں ہلاک ہونے والے پی ٹی آئی کارکن کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملے میں ہلاک ہونے والے واحد شخص کے سر پر لگنے والی گولی کا نشان دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر یہ رائفل پروجیکٹائل کا نتیجہ ہے اور یہ 30؍ بور یا 9 ایم ایم پستول کے فائر کا نشان نہیں ہے۔
سی ٹی ڈی کی فارنسک ٹیم کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کنٹینر کے بالائی حصے پر 8 گولیاں لگیں جن میں سے 6 سوراخ پائے گئے، جبکہ 2 گولیاں کنٹینر کی دیوار کو چھو کر گزر گئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک حملہ آور نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کو لے جانے والے کنٹینر پر فائرنگ کی۔ عمران خان سمیت 13؍ لوگ زخمی ہوئے جب کہ ایک شخص جائے وقوع پر مارا گیا۔ حملہ آور محمد نوید کو جائے وقوع سے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔
آئی بی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملہ آور کے پاس خودکار (آٹومیٹک) 9 ایم ایم پستول تھا، اس نے کنٹینر کی طرف نشانہ باندھ کر ایک ہی جھٹکے میں تقریباً تمام گولیاں فائر کر دیں۔ مبینہ طور پر 9 ایم ایم کی گولیوں کے 12 خول اور ایس ایم جی کے 2 خول برآمد کر لیے گئے۔ گرفتاری پر حملہ آور سے 2 میگزین اور 13 گولیاں برآمد کی گئیں۔
مارے جانے والے شخص معظم کی پوسٹ مارٹم کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس جگہ گولی داخل ہوئی وہاں تین ضرب ایک سینٹی میٹر کا نشان ہے جبکہ جس جگہ سے گولی نکلی وہاں 12 ضرب 9؍ سینٹی میٹر کا نشان ہے۔ زخم کے گرد سیاہی مائل نشان یا کوئی اور نشان نہیں۔ بظاہر یہ زخم رائفل پروجیکٹائل کے نتیجے میں ہوا ہے ناکہ 30؍ بور یا 9؍ ایم ایم کی پستول کے فائر سے۔
اگر یہ زخم نوید کے پستول سے ہونے والی فائرنگ کا نتیجہ ہوتے تو معظم کی بھنوؤں کے پاس سیاہی مائل نشان یا کوئی اور نشان ہوتا۔ مزید برآں، اس صورت میں گولی کے داخل اور انخلاء کا زخم بھی قدرے چھوٹا یعنی ایک ضرب ڈیڑھ سینٹی میٹر یا پھر ایک ضرب 0.85؍ سینٹی میٹر ہوتا۔