‘عدالتی فیصلے کو غلط سمجھا گیا’، حمزہ شہباز کی کامیابی پر قانونی ماہرین کی رائے

آرٹیکل 63 اے کہتا ہے کہ اگر کوئی ممبر پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا، احسن بھون

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں سنسنی خیز مقابلہ ڈرامائی انداز میں ختم ہوگیا جہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز نے عہدہ برقرار رکھا اور پا کستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الہٰی کو آخری لمحات میں ان کے پارٹی اراکین کی جانب سے ڈالے گئے ووٹ مسترد ہونے کے بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ مسترد کیے جانے کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کے خط کی روشنی میں ان کی پارٹی کے اراکین اسمبلی کو آخری وقت پر حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی ہدایات کیا قانونی طور پر درست تھیں؟ خاص طور پر جب سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کر دی ہے۔

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا۔

سپریم کورٹ نے بتایا :

  • عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63-اے آرٹیکل 17 کے تحت سیاسی جماعت کے بنیادی حق کا نفاذ کرتا ہے، اس لیے اس کی تشریح اور اطلاق وسیع بنیاد پر بنیادی حقوق کے ساتھ کرنا چاہیے۔
  • سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہنا تھا کہ ایوان میں ایک پارلیمانی پارٹی کا کسی بھی رکن کا ووٹ آرٹیکل 63-اے کی ذیلی شق ایک کے پیرا بی کے تحت اول الذکر کی جاری کردہ کسی ہدایت کے خلاف دیا جائے تو شمار نہیں کیا جاسکتا اور اس بات سے قطع نظر کہ پارٹی سربراہ انحراف کی وجہ بننے والے ووٹ کے بعد کارروائی کرے یا نہ کرے۔
  • آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

اگر پارلیمنٹیرین وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔

وزیراعلیٰ کے انتخاب کے بعد قانونی ماہرین کی رائے یہ ہے۔

‘ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی احکامات کو غلط سمجھا’

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر اسد رحیم خان نے کہا کہ وہ دوست مزاری کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کا متن واضح ہے کہ آپ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے مطابق ووٹ کاسٹ کریں، آئین اس کی وضاحت کرتا ہے جبکہ چوہدری شجاعت کے خط کی کوئی قانونی اور آئینی اہمیت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کو پی ایم ایل (ق) کے ووٹوں کو مسترد نہیں کرنا چاہیے تھا۔

اسد رحیم کا کہنا تھا کہ دوست مزاری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بالکل ہی غلط سمجھا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ ایک بدقسمت دن ہے کہ واضح قانون کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے لوگوں کو 10 اپریل کی صورتحال پر واپس لے جایا گیا جس دن سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی تھی۔

اسد رحیم کا مزید کہنا تھا کہ دوست محمد مزاری کا فیصلہ اسی طرح مکمل طور پر غیر قانونی ہے جیسا کہ قاسم سوری کا اپریل کا فیصلہ تھا۔

آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کے بجائے واضح طور پر پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے مطابق ووٹنگ کا کہتا ہے۔

‘پارٹی سربراہ سپریم ہے’

اینکرپرسن منیب فاروق نے نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ متعدد جماعتوں کے سربراہان اسمبلی کا حصہ نہیں تھے لیکن اس کے باوجود انہیں شوکاز نوٹس جاری کرنے یا ممبر کو نکالنے کا حق حاصل تھا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ کوئی پارلیمانی لیڈر کسی رکن کو ‘پارٹی لائن’ نہیں دے سکتا، اس حوالے سے فیصلہ پارٹی سربراہ کرتا ہے جو اسمبلی کا حصہ بننے کا پابند نہیں ہوتا۔

‘سپریم کورٹ فیصلے میں اقلیتی نقطہ نظر زیادہ وزن رکھتا ہے’

وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں اپنی رائے دیتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ آرٹیکل 63 اے کے مشاہدے میں اقلیتی نکتہ نظر دیگر تین ججوں کے اکثریتی فیصلے سے زیادہ درست تھا۔

آرٹیکل 63 اے کہتا ہے کہ اگر کوئی ممبر پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا لیکن بعد میں پارٹی اس ممبر کو ڈی سیٹ کرواسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے سپریم کورٹ نے پارٹی سربراہ کا جو ریفرنس دیا وہ آئین میں موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے آرٹیکل 63 اے کا ان کا کیس زیر سماعت ہے اور عدالت کو اس پر فیصلہ کرنا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب پر صحافیوں کی رائے

صحافی مرتضیٰ علی شاہ نے لکھا کہ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پی ایم ایل (ق) کے 10 ووٹ مسترد کر دیئے لہٰذا حمزہ شہباز کے 179 ووٹ جبکہ پرویز الہٰی کو 176 ووٹ ملے۔صحافی انصار عباسی نے لکھا کہ پرویز الہی زیادہ ووٹ لے کر بھی ہار گئے، حمزہ شہباز وزیراعلی قائم، شکریہ سپریم کورٹ فیصلہ، کیس تحریک انصاف کا تھا۔صحافی مبشر زیدی نے لکھا کہ ہمیشہ عرض کیا ہے کہ سیاسی معاملات عدالت کے بجائے ایوان میں حل ہونے چاہئیں۔صحافی غریدہ فاروقی نے لکھا کہ پرویزالہٰی کو ووٹ دینے کی ہدایت عمران خان نے پارلیمانی پارٹی کو بطور پارٹی سربراہ دیں، پی ٹی آئی اب چوہدری شجاعت کی بطور پارٹی سربراہ ہدایت کے خلاف سپریم کورٹ کیسے جا سکتی ہے؟ سادہ سا سوال ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں