عثمان بزدار کے استعفے کی منظوری لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کرنے کا عمل لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا، درخواست گزار کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار کا استعفیٰ غیر قانونی طور پر منظور کیا گیا۔

ایڈوکیٹ ندیم سرور نے لاہور ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائر کی جس میں عمران خان، عثمان بزدار ،حمزہ شہباز ، عمر سرفراز چیمہ کو فریق بنایا گیا ہے۔

عدالت نے درخواست سماعت کے لیے مقرر کرلی ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کل درخواست پر بطور اعتراض کیس سماعت کریں گے، رجسٹرار آفس نے کورٹ فیس اسٹامپ پیپر پر لف نہ کرنے کا اعتراض بھی اٹھایا تھا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیاگیا ہے کہ عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو بھجوایا تھا، قانون کے مطابق وزیر اعلیٰ استعفیٰ گورنر کو بھجوا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق گورنر چوہدری سرور نے غیر قانونی طور پر عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کیا تھا۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کرنے کے نوٹی فکیشن سمیت وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی تمام تر کارروائی کو کالعدم قرار دیاجائے۔

ایڈوکیٹ ندیم سرور نے مزید کہا کہ حمزہ شہباز کو بطور وزیر اعلیٰ کام کرنے سے روکنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے عثمان بزدار کو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب بحال کیا جائے۔

خیال رہے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے تحریک عدم اعتماد کی بازگشت کے بعد رواں سال 28 مارچ کو استعفیٰ دیا تھا۔

اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف بھی صوبائی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی تھی۔

گورنر پنجاب نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 109 کے تحت صوبائی اسمبلی کا 40واں اجلاس طلب کیا ہے، جس میں آئین کے آرٹیکل 130 کے تحت نئے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ عثمان بزدار نے 28 مارچ کو اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے اہم ترین ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کو دیا تھا۔

وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا تھا کہ ’وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کو پیش کردیا ہے اور عمران خان نے چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے’۔

بعد ازاں وزیراعظم عمران خان اور اسپیکر پنجاب اسمبلی اور مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما چوہدری پرویز الہٰی کی ملاقات ہوئی تھی اور اسی ملاقات میں وزیراعظم نے پرویز الہٰی کو نیا وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم تمام ترہنگامہ آرائی، صوبائی اسمبلی میں بد مزگی اور اراکین کے آپس میں دست و گریباں ہونے کے بعد بالآخر 16 اپریل 2022 کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز 197 ووٹوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، تاہم اب تک ان کی حلف برداری کی تقریب نہیں ہوسکتی۔

اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان کے سامنے پیش کی جانے والی لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور ’حقائق‘ نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی صداقت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

گورنر نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ’میں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کو خط لکھتے ہوئے سیکریٹری کی رپورٹ پر ان کا بیانیہ طلب کیا ہے، لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور دیگر حقائق کے بعد حلف برداری کی تقریب منعقد کروانے کے حوالے سے میرا ذہن تذبذب کا شکار ہے‘۔

انہوں نے یہ بھی تھا کہ گورنر پنجاب نے عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفے دینے پر بھی قانونی رائے طلب کی تھی کیونکہ اس وقت یہ باتیں بھی سامنے آئی تھیں کہ انہوں نے استعفیٰ گورنر کو نہیں دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں