طالبان کو تسلیم کرنے پر جی 7 کا لائحہ عمل متفقہ ہوگا: سفارتی ذرائع

سفارتی ذرائع کے مطابق امید ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کا گروپ جی سیون طالبان کو تسلیم کرنے یا ان پر پابندیوں کے حوالے سے متفقہ لائحہ عمل اپنائے گا۔

برطانوی خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق ایک یورپی سفارتکار نے کہا ہے کہ جی سیون کے رہنما طالبان کو تسلیم کرنے کے حوالے سے مشورہ کریں گے۔

سفارت کار نے مزید کہا کہ وہ مل کر کام جاری رکھنے سے متعلق بھی عہد کریں گے۔

امریکی انخلا کے اعلان کے بعد طالبان کے تیزی سے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے اور صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کے بعد غیر ملکی حکومتیں اپنے شہریوں اور اتحادیوں کو افغانستان سے سے نکال رہی ہے۔

ممکن ہے کہ امریکہ، برطانیہ، اٹلی، فرانس، جرمنی، کینیڈا اور جاپان کے رہنما متفقہ طور پر طالبان کو تسلیم کریں یا پابندیوں کی تجدید کریں۔

امریکہ میں برطانیہ کی سفیر کیرن پیئرس نے کہا ہے کہ ’برطانوی وزیراعظم بورس جانسن جی سیون ممالک کے مذاکرات کے دوران متفقہ لائحہ عمل پر زور دیں گے۔ اس میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل جین سٹولٹن برگ اور اقوام متحدہ کے سیکیریٹری جنرل اینتونیو گتریس بھی شریک ہوں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایک واضح پلان تیار کرنے کا عمل شروع کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم سب نئی افغان حکومت کے ساتھ ایک متفقہ اور متحد طریقے سے نمٹ سکیں۔‘

خودمختار ریاستوں کی جانب سے حکومت کو تسلیم کرنا ایک سیاسی عمل ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے دستخط شدہ معاہدے میں یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ’امریکہ گروپ کو بطور ریاست تسلیم نہیں کرتا۔‘

دوسری جانب کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ہزاروں افغان شہری ایئرپورٹ پر جمع ہیں۔

امریکی صدر 24 گھنٹوں میں انخلا کی توسیع کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

توقع کی جا رہی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن منگل کو ہی امریکیوں اور اتحادیوں کے انخلا کی تاریخ میں توسیع کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔

نیٹو کے ایک سفارت کار نے روئٹرز کو بتایا کہ افغانستان سے انخلا کا عمل جنگی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔

ڈیموکریٹک امریکی نمائندے اور ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شف نے انٹیلی جنس عہدیداروں کی جانب سے دیے گئے ایک بریفنگ کے بعد صحافیوں کو بتایا ان کا خیال نہیں کہ باقی آٹھ دنوں میں انخلا کا عمل مکمل ہو سکتا ہے۔

’میرے خیال میں یہ ممکن ہے لیکن میرے خیال میں ان امریکیوں کی تعداد کے پیش نظر جن کو نکالنے کی ضرورت ہے، یہ بہت مشکل ہے۔‘

امریکی صدر نے اتوار کو خبردار کیا تھا کہ انخلا کا عمل ’مشکل اور دردناک‘ ہونے والا ہے اور بہت کچھ توقع کے خلاف بھی جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ 31 اگست کی تاریخ میں توسیع کی جا سکتی ہے۔

امریکی انتظامیہ نے کہا تھا کہ صدر بائیڈن 24 گھنٹوں میں انخلا کی تاریخ میں توسیع کے حوالے سے فیصلہ کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں