صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کی جانب سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور آئی ووٹنگ کے استعمال کے حوالے سے انتخابی قوانین میں کی گئی متنازع تبدیلیوں اور قومی احتساب بیورو(نیب) کے وسیع اختیارات کو ختم کرنے کی کوشش کے حوالے سے دو بل وزیراعظم کو واپس بھیجتے ہوئے نظرثانی کی ہدایت کی ہے۔
صدر مملکت نے دستخط کیے بغیر بل واپس بھیجتے ہوئے ہدایت کی کہ ان پر نظرثانی کی جائے اور پارلیمنٹ اور متعلقہ کمیٹیاں اس پر مشاورت کریں۔دونوں بل گزشتہ ماہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کیے گئے تھے، دونوں ایوانوں سے ان کی منظوری کے بعد قانون بننے کے لیے صرف صدر کی منظوری درکار تھی۔
تاہم صدر علوی نے آج یہ کہتے ہوئے بل واپس کردیے کہ ان میں آئین کے آرٹیکل 46 کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس کے مطابق وزیراعظم صدر کو بین الاقوامی اور خارجہ پالیسی کے تمام معاملات اور وفاقی حکومت کی ان تمام قانون سازیوں کی تجاویز سے آگاہ رکھیں گے جن کو وفاقی حکومت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہو۔
صدر کے سیکریٹریٹ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صدر کو بلوں کو پارلیمنٹ میں لانے سے قبل قانون سازی کی تجاویز کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق صدرمملکت نے کہا کہ ان ترامیم کو قومی اسمبلی نے26 مئی اور سینیٹ نے 27 مئی کو عجلت اور مناسب تندہی کے بغیر منظور کیا۔
انہوں نے کہا کہ معاشرے پر دور رس اثرات مرتب کرنے والی قانون سازی پر قانونی برادری اور سول سوسائٹی سے تفصیلی مشاورت کی جانی چاہیے تھی، بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنی محنت کی کمائی کا حصہ ڈالتے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ1990 کے بعد مختلف وزرائے اعظم اور صدور کی جانب سے بیرون ملک دوروں کے دوران ان کے ساتھ وعدوں کے باوجود انہیں ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2018 میں اوورسیز پاکستانیوں کے حق رائے دہی سے متعلق اپنے 2014 کے پہلے فیصلے کو برقرار رکھا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کے ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان کے باہر سے ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے مزید کہا کہ عدالت نے اس وقت آئی ووٹنگ کی توثیق کی تھی جب آئی ووٹنگ کے طریقہ کار کو تیسرے فریق کے ذریعہ محفوظ، معتبر اور قابل بھروسہ قرار دیا گیا تھا جسے قبل ازیں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا نے محفوظ اور قابل عمل ہونے کا تعین کرنے کے لیے اسے بھجوایا تھا جس پر عدالت نے آئی ووٹنگ کو ایک پائلٹ پراجیکٹ میں استعمال کے لیے منظور کیا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے 2018 کے ضمنی انتخابات کے پروگراموں کے حوالے سے جاری کردہ مورخہ 17اگست 2018 کے نوٹیفکیشن کے مطابق 37 حلقوں (قومی اور صوبائی) کے ضمنی انتخابات 14 اکتوبر 2018 کو ہونے تھے لہٰذا بعد میں ضمنی انتخابات ایکٹ کے سیکشن 94 کے مطابق پائلٹ پروجیکٹس کے لیے کرائے جائیں گے تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے قابل بنایا جاسکے جو بلاشبہ انہیں اگلے عام انتخابات میں ووٹ دینے کا حقدار بناتا ہے۔
صدر مملکت نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2014 میں اپنے فیصلے کے باوجود سسٹم کا استعمال نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا کیونکہ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کا حق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 17 میں درج ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 17 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے، دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے ذریعے روزانہ 8.5 ارب ڈالر کے محفوظ لین دین کیے جاتے ہیں، پاکستان کی ووٹنگ مشین میں پیپر ٹریل کا پورا سسٹم موجود ہے، الیکٹرانک ووٹنگ مشین بیلٹ پیپر کی چھپائی اور گنتی میں مدد دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر الیکشن کے نتائج کو چیلنج کیا جاتا ہے اورہر حکومت پر الزامات لگتے ہیں، نئی ترامیم ایک قدم آگے جانے اور گھبرا کر دو قدم واپس پلٹ جانے کے مترادف ہیں، ترامیم الیکشن میں شفافیت اور بہتری لانے کے تکنیکی عمل میں غیر ضروری تاخیر لانے کے مترادف ہیں لہٰذا پارلیمنٹ انتخابی ترمیمی بل پر پیچھے کی جانب نہ جائے بلکہ مزید بہتری لا کر نفاذ یقینی بنایا جائے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے سفارش کی کہ پارلیمنٹ کو ان قوانین پر پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، درحقیقت ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے مقررہ وقت کے ساتھ ہی ان میں بہتری لانی چاہیے۔