پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر شوکت ترین نے موجودہ حکومت کے نئے مالی سال کے بجٹ کو ‘غیر سنجیدہ’ اور ‘غیر حقیقت پسندانہ مفروضوں’ پر مبنی قرار دیتے ہوئے ہدف شدہ شرح نمو حاصل کرنے کی حکومت کی صلاحیت پر شک کا اظہار کیا ہے۔
خیال رہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے جمعہ کو قومی اسمبلی میں مالی سال 23-2022 کا بجٹ پیش کیا جس میں آئندہ سال شرح نمو کا ہدف 5 فیصد رکھا گیا ہے۔
اسلام آباد میں عمر ایوب کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ یہ ایک انتہائی غیر سنجیدہ قسم کا بجٹ ہے جس میں غیر حقیقی مفروضے ہیں’۔
اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ نے بجٹ میں مختلف شعبوں اور شعبوں کے لیے دیے گئے بہت سے اعداد و شمار اور اہداف کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دور میں زرعی شرح نمو 4.4 فیصد رہی جو 30 برس میں سب سے زیادہ ہے، صنعتکاری کی مجموعی گروتھ 7.2 فیصد، بڑی صنعتوں کی پیداوار 10.4 فیصد اور خدمات کی شرح 6.2 بھی 30 سال کا ریکارڈ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہر چیز کی ریکارڈ پیداوار ہوئی تو یہ کہنا کہ ہمیں کمزور معیشت ملی اور بہت چیلنجز ملے تو یہ کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں، ان کو سمجھ آنی چاہیے کہ اعداد و شمار جھوٹ نہیں بولتے۔
شوکت ترین نے کہا کہ یہ کہ جب سے پاکستان سے بنا ہے اس وقت سے پی ٹی آئی کی حکومت میں جی ڈی پی میں قرضوں کی شرح 80فیصد بڑھادی، وہ 76 فیصد ضرور بڑھا ہے لیکن ہماری معیشت بھی اتنی بڑی۔
انہوں نے کہا کہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت گئی اور آپ نے 140 کھرب سے بڑھا کر 250 کھرب کیا تھا وہ 80 فیصد تھا وہ آپ کو یاد نہیں آرہا۔
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ پہلے کہتے رہے کہ مالیاتی خسارہ 64 کھرب ہے اور کل کہا کہ 51 کھرب روپے ہے وہ 51 کھرب بھی گروس ہے، کنکسولیٹڈ بھی ساڑھے 45 کھرب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ خسارہ 42 کھرب ہے جو جی ڈی پی کے 6.3 فیصد کے برابر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے دورِ حکومت میں سب سے زیادہ ریکارڈ 14 لاکھ 80 ہزار جابس سالانہ اور مجموعی طور پر 55 لاکھ جابس پیدا کیں، ہمارے دور میں ترسیلات زر، برآمدات ریکارڈ رہیں
ان کا کہنا تھا کہ ہماری تمام کارکردگی انہوں نے اپنے سروے میں شائع کی ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ بجٹ میں شرح نمو کا تخمینہ 5 فیصد دیا گیا ہے جبکہ ہماری شرح نمو 6 فیصد تھی، اور انہوں نے زرعی شرح نمو 3.9 فیصد کا تخمینہ لگایا ہے جو ہمارے دور میں 4.4 فیصد تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘انہیں سمجھنا چاہیے کہ نمبر جھوٹ نہیں بولتے چاہے آپ کتنی ہی اسپن ڈاکٹرنگ کر لیں۔
شوکت ترین نے حکومت کے بیان کردہ نمو کے ہدف کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایندھن کی قیمتوں میں حالیہ اضافے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے زرعی اور صنعتی شعبے کے اہداف پورے نہیں کیے جا سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ متوقع ہے جس سے مہنگائی 25 سے 30 فیصد تک پہنچ جائے گی، گیس ڈیولپمنٹ لیوی کے ساتھ پٹرولیم لیوی میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی سینیٹر نے کہا کہ حکومت نے بہت سے اعداد و شمار کو ‘کم اور زیادہ بجٹ’ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں بہت سی چیزیں ہیں جو انہوں نے کم دکھائی ہیں اور بنیادی طور پر انہوں نے ایک آمدنی (ہدف) ظاہر کی ہے جو کہ جمع بھی نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ان کی رائے میں کسٹم ڈیوٹی اور جی ایس ٹی کے ساتھ انکم ٹیکس میں اضافہ ہونا چاہیے تھا۔
واضح رہے کہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے، ٹیکس سلیب کی تعداد کو کم کرنے اور 12 لاکھ روپے سالانہ (ماہانہ ایک لاکھ روپے) تک کمانے والے افراد پر ٹیکس نہ لگانے کی تجویز پیش کی ہے۔
شوکت ترین نے الزام لگایا کہ ٹیکس کی وصولی کو بڑھانے کے لیے بورڈ آف ریونیو میں متعارف کرائے گئے 5 نئے پروگراموں کو حکومت نے روک دیا ہے اور یہ فکسڈ انکم ٹیکس جیسے ‘پرانے ہتھکنڈوں کا سہارا لے رہی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پرانے پاکستان کی اسی پرانی منطق سے کام کر رہے ہیں’۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کچھ اقدامات اور کاموں کے ساتھ آگے بڑھی تھی کہ عالمی مالیاتی فنڈ نے پی ٹی آئی حکومت کو روک دیا، میرے خیال میں اب انہیں آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوگا۔
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ‘میرے خیال میں معیشت اور اسے ٹھیک کرنا ان کا ہدف نہیں تھا، ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ آ کر اپنے فائدے کے لیے دو یا تین چیزوں جیسے کہ نیب قانون اور انتخابی قانون میں ترمیم کو تبدیل کریں۔
انہوں نے بجٹ پر ‘مسائل کو نظر انداز کرنے’ جیسے کہ کم از کم اجرت یا پی ٹی آئی کے متعارف کرائے گئے ‘بہت سے غریب نواز اقدامات کو ختم کرنے’ پر تنقید کی۔
شوکت ترین نے کہا کہ بجٹ نے 2 کروڑ افراد کو خط غربت سے نیچے جانے کے خطرے میں ڈال دیا ہے۔
انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسے بہتر شرائط پر اتفاق کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال ‘انتہائی مخدوش’ ہے اور اسے ایک نئی حکومت کی ضرورت ہے جسے عوام کا مینڈیٹ حاصل ہو۔