سیکریٹری پنجاب اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر کے عملے پر شواہد پر مبنی ہارڈ ڈرائیو کی چوری کا الزام

پنجاب اسمبلی میں ہفتے کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے دوران پیش آنے والے واقعات کے ویڈیو شواہد کی حامل ہارڈ ڈسک کرپٹ ہو سکتی ہے کیونکہ اسمبلی کارروائی کے ڈیٹا پر مشتمل ہارڈ ڈسک کو محکمہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کمپیوٹر سے ہٹا دیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ اسمبلی سیکریٹریٹ کے محکمہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے اسمبلی سیکریٹری محمد خان بھٹی کو مطلع کیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری کے ذاتی عملے کے چند ارکان نے ہفتے کو دیر گئے ان کے دفتر کا دورہ کیا تھا تاکہ ایوان کی کارروائی پر مشتمل پورے ڈیٹا کو کمپیوٹر سسٹم سے ہٹایا جا سکے۔آئی ٹی اہلکار نے سیکریٹری کو تحریری طور پر مطلع کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس حوالے سے مزاحمت کی اور ان افراد کو پورا سسٹم لے جانے میں دشواری ہوئی تو انہوں نے صرف ہارڈ ڈرائیو ہٹا دیا۔

‘ڈیٹا چوری’ کی رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی ترجمان عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ پرویز الہٰی اور پی ٹی آئی کی قیادت دوست محمد مزاری اور حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی پر تشدد کے احتساب سے نہیں بچ سکے گی کیونکہ کارروائی کو کور کرنے والے میڈیا کے پاس ویڈیو کلپس موجود ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے سیل فونز اور ویڈیو کیمروں نے بھی ان مناظر کو قید کر لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پرویز الہٰی نے اس سے قبل اسمبلی میں کی گئی ‘غیر قانونی’ تقرریوں کا ریکارڈ ہٹا دیا تھا لیکن یہ بھی پنجاب کا اقتدار سنبھالنے کے بعد جلد ہی بحال ہو جائے گا۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے ہفتے کی شام کو انتخابی عمل کے دوران ہنگامہ آرائی پر قابو پانے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے اور/یا ناکامی پر محمد خان بھٹی سمیت چار سینئر افسران کے اسمبلی کی عمارت میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی، محمد بھٹی نے اتوار کو اپنے دفتر کا دورہ کیا اور گورنر کے مشاہدے کے لیے ہفتے کے واقعے پر ایک رپورٹ مرتب کی۔

گورنر عمر سرفراز چیمہ نے اسمبلی میں ہونے والی کشیدگی کی رپورٹ طلب کی تھی۔

گورنر ہاؤس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد خان بھٹی کی رپورٹ میں ووٹنگ سے قبل ہنگامہ آرائی کا ذمہ دار ڈپٹی اسپیکر اور اپوزیشن اراکین کو ٹھہرایا گیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے صبح کے اجلاس میں ایک گھنٹے کی تاخیر کی، اسمبلی کی اپنی سیکیورٹی کے بجائے پولیس اہلکاروں کی حفاظت میں ایوان میں داخل ہوئے اور قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسمبلی ہال میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو تعینات کرنے کا اختیار دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتی بینچوں سے خواتین اراکین صوبائی اسمبلی اور ان کے مرد ساتھیوں نے احتجاج کیا اور اسپیکر کے ڈائس پر تبھی گئے جب دوست محمد مزاری کی حفاظت میں پولیس نے کچھ خواتین ارکان کو تھپڑ مارا جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر اپنے چیمبر میں واپس آگئے، اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کے امیدوار اسپیکر پرویز الہٰی پر بھی حملہ کیا گیا۔

دریں اثنا اسمبلی سیکریٹریٹ نے کل رات گئے اجلاس کو نئے سرے سے بلانے اور اسے واپس لینے کے احکامات کے معاملے کو بھی دیکھا۔

دوست محمد مزاری نے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے الیکشن کے نتیجے کا اعلان کرنے کے فوراً بعد ایوان کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا تھا، لیکن انہوں نے اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے پیر کو اجلاس دوبارہ طلب کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

تاہم جب انہیں اسمبلی کے عملے نے بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد جمع کرائی گئی ہے اور اسپیکر کے خلاف تحریک عدم سے قبل ان کے خلاف قرارداد پیش کی جائے گی تو دوست محمد مزاری نے اجلاس بلانے کے احکامات واپس لے لیے۔

بعد ازاں اتوار کو ہونے والی پیشرفت میں اسپیکر پرویز الہٰی نے ملتوی کیے گئے اجلاس کی اگلی نشست 28 اپریل کو واپس بلانے کا حکم دیا ہے اور اسمبلی سیکریٹریٹ نے فوری طور پر اس کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے۔

دریں اثنا صوبائی اسمبلی کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کو گریڈ 20 یا اس سے اوپر کے کسی افسر کو معطل کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے کیونکہ یہ اختیارات اسپیکر کے پاس ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں