ملک بھر میں موسلا دھار بارشوں اور سیلاب کی تباہ کا ریوں سے متاثرہ لاکھوں سیلاب زدگان پناہ کے لیے کراچی پہنچ رہے ہیں جبکہ خیراتی اداروں اور فلاحی تنظیموں نے بھی اپنی امدادی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں لیکن اہم سڑکیں اور شاہراہیں ڈوب جانے کے سبب متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں سرانجام دینا ان اداروں کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کراچی سے مختلف تنظیموں سے وابستہ سیکڑوں رضاکار سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کی جانب روانہ ہوچکے ہیں لیکن تباہ شدہ انفرااسٹرکچر کی وجہ سے امدادی سامان کے ٹرکوں کو متاثرہ قصبوں اور دیہاتوں تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
امدادی سرگرمیوں میں مصروف عمل فلاحی تنظیمیں اس بات پر متفق ہیں کہ سیلاب کے سب پیدا ہونے والا حالیہ بحران 2010 کے سیلاب کے بعد دیکھے گئے بحران سے کہیں زیادہ شدید ہے۔
سربراہ الخدمت ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل سرفراز شیخ نے کہا کہ ان کی تنظیم ملک بھر سے فنڈز اکٹھا کر رہی ہے لیکن وہ بلوچستان اور سندھ کے سیلاب زدہ اضلاع میں امدادی سامان بھیجنے، رضاکاروں کی بھرتی اور وسائل کا بندوبست کرنے کا کام کراچی سے سنبھال رہے ہیں مگر اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ حیدرآباد سے آگے پورے صوبے میں موجود سڑک، ہائی وے یا دیگر متبادل راستے سیلاب میں ڈوب چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’لہذا اس صورتحال میں وسائل کا بندوبست کرنا ایک چیلنج ہے جبکہ انہیں صحیح جگہ پر پہنچانا ایک اور چیلنج ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہم نے اپنی حکمت عملی نئے سرے سے ترتیب دی ہے،
انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے سکرنڈ میں ایک بڑا باورچی خانہ قائم کیا ہے اور دوسرا آج سکھر میں کھولا جا رہا ہے جو تینوں بڑے متاثرہ علاقوں (سکھر، شکارپور اور جیکب آباد) میں دن میں 2 وقت پکا ہوا کھانا فراہم کرے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم بہتر اور مؤثر آپریشن کے لیے مقامی انتظامیہ اور دیگر تمام فلاحی تنظیموں کے ساتھ رابطہ کر رہے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ الخدمت نے 4 شعبوں میں اپنے آپریشن کی منصوبہ بندی کی ہے جن میں پناہ گاہیں، راشن، میڈیکل کیمپ اور غذائی ضروریات کے لیے پکا ہوا تیار کھانا شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حکمت عملی کے تحت الخدمت نے سندھ میں ریلیف آپریشن کے لیے سکھر اور سکرنڈ میں بیس کیمپ قائم کیے ہیں، بلوچستان میں ٹیم گزشتہ 3 ہفتوں سے مصروف عمل ہے اور بیلہ اور کوئٹہ میں بھی کیمپ لگائے گئے ہیں۔
جعفریہ ڈیزاسٹر سیل (جے ڈی سی) نے عطیات کے لیے شہر بھر میں کیمپ قائم کیے ہیں، تنظیم کے سربراہ ظفر عباس کا خیال ہے کہ میڈیا نے اس تباہ کن صورتحال کو اجاگر کرنے میں تھوڑی دیر کی جو گزشتہ ایک ماہ سے قیمتی جانوں اور املاک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
لیکن اس کے باوجود انہوں نے کراچی والوں سے عطیات کی اپیل کی اور چند چیزوں کا مختصراً ذکر کیا جو امدادی کاموں میں اہم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم خوراک، خیمے اور راشن فراہم کر رہے ہیں اور سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کے لیے درجنوں کشتیوں کا استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’دو تلوار، نمائش، انچولی اور فائیو سٹار چورنگی پر ہمارے کیمپس موجود ہیں جہاں لوگ عطیات فراہم کر رہے ہیں، میں نے ذاتی طور پر سندھ اور بلوچستان میں سیکڑوں دیہات کو برباد ہوتے دیکھا ہے جہاں تمام گھر اور فصلیں اجڑ چکی ہیں ہیں، یہ سانحہ بہت بڑا ہے اور ہم کراچی کے لوگوں سے اسی درجے کے ردعمل کی توقع رکھتے ہیں‘۔
انہوں نے سندھ اور بلوچستان میں امدادی کارروائیاں کرنے والی تمام فلاحی تنظیموں کے لیے حکومت کی جانب سے مزید تعاون اور مدد کی درخواست کی۔
تباہ شدہ انفرااسٹرکچر کی وجہ سے امدادی سامان لے جانے والے سیکڑوں ٹرک ٹریفک جام میں پھنس گئے ہیں، متاثرہ افراد میں امدادی اشیا کی بروقت تقسیم کے لیے اس مسئلے کو فوری طور پر حل کیا جانا ضروری ہے۔
وبائی امراض کا خدشہ
دریں اثنا ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے بچوں اور خواتین میں وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
خیراتی ادارے کا کہنا ہے کہ جیکب آباد میں ایک فیلڈ ہسپتال قائم کیا جا رہا ہے جو ہزاروں مریضوں کو علاج فراہم کرے گا۔
خیراتی ادارے کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ’سندھ میں ہماری ٹیموں کی جانب سے متاثرین کے انخلا کا آپریشن تقریباً مکمل ہوچکا ہے اور اب انہیں پناہ گاہیں فراہم کرنے کا وقت آگیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس وقت ختم ہو رہا ہے، پوری احتیاط اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس آپریشن کو سرانجام دینا بہت ضروری ہے، سیلاب کی وجہ سے بچے، خواتین اور بوڑھے افراد مختلف متعدی بیماریوں کا شکار ہیں، خوراک اور رہائش کا بندوبست کرنے کے بعد ہمارے رضاکار اب طبی ٹیموں کے ساتھ صحت کی دیکھ بھال کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں‘۔
سیلانی ویلفیئر نے بھی حیدرآباد میں ایک لاجسٹک سینٹر قائم کردیا ہے جو قریبی علاقوں میں متاثرہ لوگوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے جبکہ دوسرا سینٹر سکھر میں قائم کیا گیا ہے جو خیرپور، کوٹ ڈیجی اور پنو عاقل میں لوگوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔
ترجمان سیلانی ویلفیئر نے کہا کہ اس لاجسٹک سینٹر کے ذریعے روزانہ کم از کم 50 ہزار افراد کو کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اسی طرح مٹیاری، موسی کھٹیاں، کوٹری اور ٹنڈو جام میں بھی مستقل کچن بنائے گئے ہیں، سندھ اور بلوچستان میں متاثرین کا انخلا تقریباً مکمل ہوچکا ہے، اب سب سے بڑا چیلنج بے گھر لوگوں کے لیے رہائش اور خوراک ہے، متاثرین مرکزی شاہراہوں اور سڑکوں پر کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں، انہیں مناسب ٹھکانہ فراہم کرنے کے لیے غیرمعمولی اقدمات کی ضرورت ہے‘۔