سیشن جج کے فیصلے کے خلاف خواجہ آصف کی درخواست پر وزیر اعظم کو نوٹس جاری

اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر اعظم کی جانب سے دائر کردہ ہتک عزت کیس میں سیشن کورٹ کے فیصلے سے متعلق خواجہ آصف کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے وزیر اعظم کو نوٹس جاری کردیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے وزیر اعظم کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا جبکہ سیشن جج کو بھی آئندہ سماعت تک کارروائی سے روک دیا ہے۔

درخواست میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور وزیر اعظم عمران خان کو فریق بنایا گیا ہے۔

سماعت کے دوران خواجہ آصف کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار خواجہ آصف 29 دسمبر 2020 سے 23 جون 2021 تک قید تھے اور اپنے وکیل کو ہدایات دینے سے قاصر تھے، وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے خواجہ آصف کے وکیل کی عدم پیروی پر یک طرفہ کارروائی کا فیصلہ کیا۔

خواجہ آصف کے وکیل نے کہا کہ سیشن جج نے سی پی سی میں وضع طریقہ کار کے برعکس فیصلہ دیا، وکیل نے استدعا کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ماتحت عدالت کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے۔

وکیل نے مزید کہا صرف انصاف نہیں ہونا چاہیے بلکہ انصاف ہوتے ہوئے نظر بھی آنا چاہیے۔

اس موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ یہ معاملہ سیشن جج کے پاس کب سے زیر التوا ہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ یہ معاملہ 2012 سے زیر التوا ہے۔

عدالت نے پوچھا کہ اس التوا کا ذمہ دار کون ہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ خواجہ آصف اور عمران خان دونوں کے وکیل ذمہ دار ہیں، خواجہ آصف کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ سیشن جج کی جانب سے 17 دسمبر 2021 کو دیے جانے والے حکم کو معطل کیا جائے۔

عدالت نے سماعت 12 جنوری تک ملتوی کر دی۔

درخواست کا پس منظر

پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینئیر رہنما خواجہ آصف کی جانب سے ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کیے گئے وزیراعظم عمران خان کے بیان کی قانونی حیثیت کو گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

خواجہ آصف کی جانب سے شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے فنڈز کے غلط استعمال کے الزام کے بعد وزیر اعظم کی جانب سے ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا گیا تھا۔

خواجہ آصف نے ایک پریس کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان پر شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے فنڈز کے غلط استعمال اور اس کے ذریعے منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد 2012 میں عمران خان نے خواجہ آصف پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرکے 10 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

اپنی درخواست میں وزیراعظم نے خواجہ آصف کی یکم اگست 2012 کو کی گئی پریس کانفرس کا حوالہ دیا تھا جس میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے سربراہ زکوٰۃ، فطرے اور دیگر مدات میں شوکت خانم ٹرسٹ کو ملنے والے فنڈز ’ریئل اسٹیٹ جوئے‘ میں ہار گئے۔

18 دسمبر 2021 کو وزیر اعظم نے عدالت میں ڈیجیٹل طریقے سے بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا تھا کہ 1991 سے 2009 تک وہ شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے سب سے بڑے انفرادی عطیہ کنندہ تھے اور یہ کہ جس سرمایہ کاری کے حوالے سے الزام لگایا جارہا ہے وہ ٹرسٹ کی جانب سے بغیر کسی نقصان کے ریکور کرلی گئی تھی۔

وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ان من گھڑت اور بے بنیاد الزامات کا مقصد شوکت خانم ٹرسٹ پر سے عوام کے اعتماد کو کم کرنا تھا، وزیر اعظم نے یہ بیان ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عدنان کے سامنے ریکارڈ کروایا تھا۔

اپنی درخواست میں خواجہ آصف نے کہا تھا کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے یکطرفہ طور پر انہیں عمران خان سے جرح کا حق نہیں دیا۔

درخواست کے مطابق، مقدمے میں شامل معاملات کو 5 جنوری 2021 کو تیار کیا گیا تھا اور درخواست گزار نے 16 جنوری کو گواہوں کی فہرست جمع کروائی تھی۔

درخواست میں دلیل دی گئی تھی کہ درخواست گزار نے دفاع کے گواہوں کی تعداد بڑھانے کے لیے متعدد درخواستیں دائر کی تھیں، لیکن ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ان درخواستوں پر فیصلہ کیے بغیر معاملے کو آگے بڑھا دیا۔

خواجہ آصف نے اس کارروائی کو روکنے کی درخواست دائر کی جسے 23 اکتوبر 2021 کو خارج کر دیا گیا تھا 26 نومبر کو خواجہ آصف کے وکیل نے کارروائی میں شامل ہونے کے لیے دوبارہ درخواست دائر کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا، تاہم ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے خواجہ آصف کی جانب سے بیان حلفی جمع کروانے کی زبانی درخواست کو 5 ہزار روپے کی ادائیگی سے مشروط کرتے ہوئے قبول کرلیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ 17 دسمبر2021 کو کارروائی شروع ہونے سے قبل عدالت کو بتایا گیا کہ خواجہ آصف کے وکیل بیماری کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکتے تاہم ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے وکیل کی عدم موجودگی میں وزیر اعظم خان کا بیان ریکارڈ کیا، اب اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے حکم کو منسوخ کردے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں