سیالکوٹ فائرنگ واقعہ میں ’دشمن انٹیلی جنس ایجنسی‘ ملوث تھی، آئی جی پنجاب

انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہا ہے کہ رواں ہفتے کے شروع میں سیالکوٹ کی مسجد میں فائرنگ کرکے 3 افراد کو قتل کرنے میں بدمعاش قوم کی دشمن انٹیلی جنس ایجنسی ملوث ہے۔

11 اکتوبر کو نماز فجر کے دوران ڈسکہ کی مسجد میں ہونے والے ٹارگٹڈ حملے میں ایک نمازی، کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والا مذہبی کارکن اور اس کا سیکیورٹی گارڈ مارا گیا تھا۔

آج پریس کانفرنس کرتے ہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے حملے کے پیچھے حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ حملے بدمعاش اور بغیر قوم کی جانب سے کیے گئے اور ان کی منصوبہ بندی پاکستان سے باہر کی گئی، آئی جی پ1213552نجاب نے اس مبینہ بدمعاش قوم کا نام نہیں بتایا۔

انہوں نے کہا کہ مجرموں کی شناخت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اتحاد اور باہمی تعاون سے ممکن ہوئی، ان کارروائیوں میں ملوث زیادہ تر مجرموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، ریاست پاکستان قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے بدمعاش قوم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرے گی۔

ڈاکٹر عثمان انور نے ریاست پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والے والے ’چوہوں‘ کو خبردار کیا کہ اب وہ تیار رہیں کیونکہ ہم ان کے بدبودار اور گندے اعمال کو دفتر خارجہ اور دیگر اداروں کے ذریعے بے نقاب کرنے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس، کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ، انٹر سروسز انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو اور ملٹری انٹیلی جنس اس واقعے کے مجرموں کا سراغ لگانے اور مزید حملوں کو ناکام بنانے کے لیے متحد ہیں۔

حملے کے بارے میں بات کرتے ہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ نے کہا کہ سیالکوٹ کی ایک مسجد میں فائرنگ کے واقعے میں چند قتل کیے گئے، انہوں نے مزید کہا کہ ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا ہے اور اب انہیں عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی پاکستان سے باہر کی گئی، دشمن انٹیلی جنس ایجنسی نے ایک شخص کو پاکستان بھیجا، ہمارے پاس تمام ریکارڈ موجود ہے کہ یہاں آنے والا شخص کون ہے، وہ کس سے ملا، اس کی جیو لوکیشن بھی ہمارے پاس موجود ہے، وہ دہشت گرد 6 اکتوبر سے 9 اکتوبر کے درمیان یہاں آئے اور 11 اکتوبر کو اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔

ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ پولیس اپنی آئندہ پریس کانفرنس میں تینوں حملہ آوروں اور ان کے سہولت کاروں کی شناخت کے ساتھ دشمن ملک کی نشاندہی بھی کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بکنگ ڈاٹ کام اور دیگر سائٹس کے ڈیٹا سمیت تمام قسم کے ثبوت موجود ہیں، ہمارے کانسٹیبل گئے اور ہوٹلوں کی تلاشی لی، ہم نے سی ٹی ڈی کے ساتھ مل کر ناقابل تردید شواہد اکٹھے کیے ہیں جنہیں ہم میڈیا اور عدالت میں پیش کریں گے۔

سیالکوٹ حملہ

مقتول کارکن مولانا شاہد لطیف کے سیکیورٹی گارڈ ذوالفقار علی نے بتایا تھا کہ 11 اکتوبرکی صبح 6 نامعلوم افراد موٹر سائیکلوں پر منڈیکے گورایا چوک میں واقع نوری مدینہ مسجد پہنچے جن میں سے تین نماز میں شامل ہوگئے۔

انہوں نے کہا تھا کہ بعد ازاں گولیوں کی آوازیں سنی گئیں اور چند ہی لمحوں میں حملہ آور جائے وقوع سے فرار ہوگئے، مسلح ملزمان نے مجھ پر بھی گولی چلائی لیکن میں محفوظ رہا۔

پولیس کے مطابق فائرنگ سے نمازی مولانا احد، مولانا محمد لطیف اور ان کا ایک سیکیورٹی گارڈ ہاشم علی شدید زخمی ہوگئے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ مولانا محمد لطیف سر میں گولی لگنے سے موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جب کہ مولانا احد اور سیکیورٹی گارڈ کو تشویشناک حالت میں فوری طور پر تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ڈسکہ منتقل کیا گیا۔

بعد ازاں گارڈ بھی دم توڑ گیا جب کہ مولانا احد کو گوجرانوالہ کے ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ بھی دم توڑ گئے۔

عینی شاہد قمر عباس اور سلیم ورک نے بتایا تھا کہ ملزمان کی عمریں 20 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔

ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) سیالکوٹ محمد حسن اقبال نے کہا تھا کہ اسے ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کا واقعہ کہا جا سکتا ہے، انہوں نے مزید کہا تھا کہ پولیس تفتیشی ٹیموں نے جائے وقوع سے تمام شواہد اور مقامی لوگوں کے بیانات حاصل کر لیے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی پی او نے تصدیق کی کہ محمد شاہد لطیف کالعدم جیش محمد (جی ای ایم) کا سرگرم کارکن تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں