پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب وفاقی اور صوبائی حکومتیں ختم ہوگئیں اور لوٹے فارغ ہوگئے ہیں۔
لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ کی رائے فیصلے کی حیثیت رکھتی ہے، یعنی یہ سپریم کورٹ کی رائے نہیں بلکہ فیصلہ اور تمام اداروں پر اطلاق ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سیاسی ماحول کے اعتباد سے جو سب سے اہم بات ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ آج سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کا مؤقف تسلیم کر لیا ہے اور کہا ہے جو لوٹے یا منحرف اراکین ہیں وہ ووٹ نہیں ڈال سکتے ہیں اور ان کا ووٹ شمار نہیں ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسرا فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ نااہلی کی صورت میں یہ تاحیات نااہل ہوں گے اور اس کو آرٹیکل 63 اے کو 62 کے ساتھ پڑھنا ہوگا، علیحدہ علیحدہ نہیں پڑھنا ہوگا لہٰذا تاحیات نااہلی بھی ان لوگوں پر آگئی ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اب اس فیصلے کا اثر یہ ہے کہ آج وفاقی حکومت میں شہباز شریف اور پنجاب میں حمزہ شہباز دونوں اپنی اکثریت کھو چکے ہیں اور دونوں حکومتیں عملی طور پر آج ختم ہوگئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت قومی اسمبلی کے اعداد وشمار کے مطابق شہباز شریف کے پاس 173 ووٹ تھے، وہاں 3 لوگ پہلے ہی مسلم لیگ (ن) سے الگ ہوچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب صدرمملکت قومی اسمبلی میں شہباز شریف کو اعتماد کے ووٹ کا کہیں گے تو اس کے پاس اراکین 169 ہیں اور اس کے ساتھ صوبائی حکومت میں حمزہ شہباز کے پاس 171 اراکین ہیں جبکہ حکومت برقرار رکھنے کے لیے 186 اراکین درکار ہوتے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی حکومت ختم ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کے فیصلے کے بعد وہ 25 اراکین جن کی نااہلی کا فیصلہ کل سنایا جانا ہے، ان کا ووٹ حمزہ شہباز کے ووٹ سے خارج ہوتا ہے لہٰذا ان کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاق میں اس وقت شہباز شریف کے 169 ووٹ ہیں جبکہ ان کی اکثریت کے لیے 172 ووٹ چاہیے لہٰذا ان کی اکثریت ختم ہوجاتی ہے، آج ہی شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو اپنے عہدوں سے الگ ہونا چاہیے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ صدر مملکت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس اسمبلی میں کسی کے پاس اکثریت نہیں ہے، اس لیے اسمبلی توڑ دیں، اسی طرح صوبائی اسمبلی کو توڑ دیا جائے اور ملک میں نئے انتخابات کی طرف بڑھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ آج کے فیصلے کی عملی صورت صرف ایک ہے کہ اسمبلیاں برخاست ہو رہی ہیں اور ملک نئے انتخابات کی طرف جا رہا ہے، میں اس فیصلے پر پورے پاکستان، اپنی قانونی ٹیم اور تمام وہ لوگ جنہوں نے عمران خان کے ساتھ والہانہ عشق کا اظہار کیا ان کو سلام پیش کرتا ہوں اور اصل جیت ان کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت اب عملی طور پر ختم ہوچکی ہے۔
‘حکومت الیکشن کا اعلان کرے’
پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ‘صدارتی ریفرنس سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ھے، اس فیصلے سے مستقبل میں ضمیر فروشی کا راستہ بند ہوگیا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آج کے بعد پنجاب حکومت کی کوئی وقعت باقی نہیں رہ گئی، فلور کراسنگ جیسی لعنت کے سہارے بیرونی سازش کے ذریعے اقتدار پر قابض امپورٹڈ وفاقی حکومت بھی فوری الیکشن کا اعلان کرے’۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ ‘پاکستانی عوام کو مبارک، لوٹے فارغ، پنجاب حکومت کا جواز ختم، وفاقی حکومت فوری طور پر استعفیٰ دے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘بیرونی مداخلت اور لوٹوں پر بنی حکومت کا ایک دن بھی اور چلنے کا کوئی جواز نہیں ہے’۔
پی ٹی آئی رہنما شہباز گل نے کہا کہ ‘آج کے فیصلے سے عمران خان اور پاکستان کا مؤقف جیت گیا، حمزہ ککڑی بھی فارغ اور ساتھ ساتھ یہ پورا امپورٹڈ ٹولا فارغ ہوگیا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اب تحریک انصاف کے لوگ الیکشن کی تیاری کریں کیونکہ پنجاب میں جو صورت حال پیدا ہو گئی ہے اس کو اب ککڑی اور اس کے حواری کنٹرول نہیں کر سکتے، ان شاللہ خان واپس آ رہا ہے’۔قبل ازیں سپریم کورٹ نے صدر مملکت کی جانب سے اسمبلی میں پارٹی کے فیصلے کا انحراف کرنے والے اراکین کے خلاف فیصلے سے متعلق 63 اے پر پوچھے گئے سوالات پر فیصلہ سنا دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کہ انحراف کرنا سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم اور پارلیمانی جمہوریت کو ڈی ریل بھی کر سکتا ہے، آرٹیکل 17 کے تحت سیاسی جماعتوں کے حقوق ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 63- اے کا مقصد انحراف سے روکنا ہے، آرٹیکل 63- اے کی اصل روح ہے کہ سیاسی جماعت کے کسی رکن کو انحراف نہ کرنا پڑے۔
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63- اے کا مقصد جماعتوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہے، منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، پارٹی پالیسی کے خلاف ڈالا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔
فیصلے میں صدر مملکت کے رکن اسمبلی کے انحراف کی صورت میں تاحیات نااہلی کے سوال پر رائے نہیں دی گئی اور مستقبل میں انحراف روکنے کا سوال عدالت نے صدر کو واپس بھجوا دیا۔
سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ منحرف رکن کی نااہلی کی معیاد کا تعین کا پارلیمنٹ کرے، صدر مملکت کے ریفرنس پر رائے دینا ہمارے لیے آئین دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔