سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے ساتھی جسٹس سردار طارق مسعود نے نئے عدالتی سال کی تقریب میں چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال کی تقریر پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘انہوں نے جو کچھ کہا اس سے کہیں زیادہ تھا جو انہیں کہنا چاہیے تھا’۔
رپورٹ کے مطابق جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے تمام اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے ایک مشترکہ خط میں کہا گیا کہ ‘تقریب کا مقصد (جیسا کہ چیف جسٹس نے کہا) ہماری ترجیحات کی نشاندہی اور آنے والے سال کے لیے اپنے وژن کا تعین کرنا تھا’ لیکن چیف جسٹس نے اس سے بہت زیادہ کہا۔
خط کے مطابق انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو درست ثابت کرنے، اس کے فیصلوں پر تنقید کا جواب دینے اور سپریم کورٹ کی جانب سے یکطرفہ طور پر بات کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘سپریم کورٹ اکیلے چیف جسٹس پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں سپریم کورٹ کے تمام ججز شامل ہیں، زیر التوا مقدمات پر چیف جسٹس کا تبصرہ پریشان کن تھا۔‘
جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود دونوں جو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے 9 ارکان میں سے ہیں، نے کمیشن کے 28 جولائی کے اجلاس کے فوراً بعد بھی خطوط لکھے تھے، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اجلاس نے ججوں کو ترقی دینے کے لیے نامزدگیوں کو مسترد کردیا تھا۔
تازہ ترین خط میں انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ جب سپریم کورٹ کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ خالی ہے تو کیا ججوں کو فیصلہ کردہ مقدمات کی تعداد کے لیے خود کو سراہنا چاہیے اور یہ کہ مکمل عدالت بلاشبہ کہیں زیادہ مقدمات کا فیصلہ کرتی’۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں نامزدگیوں کے لیے موسم گرما کی تعطیلات سے پہلے اور بعد میں بار بار چیئرمین جوڈیشل کمیشن آف پاکستان سے کمیشن کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
دونوں سینئر ججوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جلد اجلاس بلانے پر زور دینے کے لیے ہم نے کہا تھا کہ خالی اسامیوں کو پُر نہ کرنا آئینی ذمے داری سے لاپرواہی ہے لیکن اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہوا’۔
مشترکہ خط کی نقل سپریم کورٹ کے قائم مقام رجسٹرار اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے قائم مقام سیکریٹری کو بھی بھیجی گئی ہے اور ساتھ ہی ہدایت کی گئی کہ ‘خط اور اس کا اردو ترجمہ میڈیا کو جاری کیا جائے کیونکہ یہ چیف جسٹس کے خطاب سے متعلق ہے جو بڑے پیمانے پر رپورٹ ہوا تھا۔
جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ چیف جسٹس نے مبینہ طور پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) اور اس کے موجودہ اور ماضی کے متعدد عہدیداروں کے بارے میں ‘غیر ضروری اور توہین آمیز’ ریمارکس دیے، ‘ان پر سیاسی جانبداری کا الزام لگایا کیونکہ انہوں نے درخواست کی تھی کہ مذکورہ کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ جب عدالت عظمیٰ نے ان کی درخواست مسترد کردی تھی تو چیف جسٹس ان کی تذلیل اور ان کے مقاصد کو منسوب نہیں کرسکتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے جو کچھ کیا، چیف جسٹس نے اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی اور غیر ضروری طور پر کہا کہ اس درخواست کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔
ججز کے مطابق لیکن جو بات سب سے زیادہ ‘نامناسب، اور غیر معقول’ تھی وہ تقریر میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے کام اور فیصلوں کا ذکر کرنا تھا، جو کہ آئین کے تحت ایک علیحدہ اور خود مختار ادارہ ہے۔
خط کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن چیئرمین کے تجویز کردہ امیدواروں کو منظور نہیں کیا گیا اور اس کے لیے وفاقی حکومت کے نمائندوں، یعنی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل فار پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا، ساتھ ہی اپنی ناراضی کا اظہار بھی کیا۔
خط میں حیرت کا اظہار کیا گیا کہ ‘کسی بھی حالت میں جے سی پی کے چیئرمین کو وہ نہیں کہنا چاہیے جو کہا گیا تھا’ اور اس بات پر زور دیا گیا کہ کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے چیف جسٹس کو اپنے فیصلوں کی پابندی کرنی چاہیے بجائے اس کے کہ کمیشن کے اراکین کی جانب سے ان کے تجویز کردہ امیدواروں کی حمایت نہ کرنے پر سرِ عام ان پر مبینہ حملے کریں۔
خط میں کہا گیا کہ جوڈیشل کمیشن کے تمام ممبران، بشمول اس کے چیئرمین، برابر ہیں، چیف جسٹس کی واحد اضافی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے چیئرمین کے طور پر کام کریں، آئین میں کہا گیا ہے کہ کمیشن اپنی کل رکنیت کی اکثریت سے ججوں کو نامزد کرے گا۔