سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن سیٹلمنٹ کے طور پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نام پر قائم بینک اکاؤنٹس میں بھیجے گئے 35 ارب روپے وفاقی حکومت کو منتقل کیے جائیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ نے 460 ارب روپے کے بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے نیشنل بینک پاکستان کو ہدایت دی کہ رقم وفاقی حکومت کو بھیجیں اور اس کی تصدیق رجسٹرار کو جمع کروائیں۔
جمعرات کو طویل سماعت کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی کی طرف سے دیے گئے آرڈر میں بتایا گیا کہ چونکہ مشرق بینک کے علاوہ جن فریقین کو نوٹس جاری کیے گئے تھے ان میں سے کوئی بھی آگے نہیں آیا اور جیسا کہ 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ادائیگی کی ضرورت ہے، اس لیے اس عدالت کے لیے رقم یا مارک اپ کے طور پر کمائی گئی کسی بھی رقم کو برقرار رکھنا غلط ہوگا۔
20 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے 10 مختلف اداروں اور افراد کو نوٹس جاری کیے تھے، جنہوں نے مبینہ طور پر بیرون ملک سے تقریباً 13 کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ اور تقریباً 4 کروڑ 40 لاکھ ڈالر (اس وقت کے تقریباً 35 ارب روپے) بھیجے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیر قیادت 3 رکنی بینچ کے حکم کے مطابق یہ رقم وفاقی حکومت کو واپس کی جائے گی۔
نوٹس فورچیون ایونٹ لمیٹڈ، ایمیریٹس دبئی، متحدہ عرب امارات ؛ مبشرہ علی ملک، بینہ ریاض اور ثنا سلمان، متحدہ عرب امارات ؛ مشرق بینک لندن؛ الٹیمیٹ ہولڈنگز ایم جی ٹی لمیٹڈ، برٹش ورجن آئی لینڈز؛ پریمیئر انویسٹمنٹس گلوبل لمیٹڈ، متحدہ عرب امارات؛ احمد علی ریاض، متحدہ عرب امارات؛ پریمیئر انویسٹمنٹس گلوبل لمیٹڈ، متحدہ عرب امارات؛ اور ویڈ لیک بیل ایل ایل پی، لندن اور برطانیہ کو جاری کیے گئے۔
لیکن صرف مشرق بینک اپنے وکیل راشد انور کے ذریعے سامنے آیا اور سپریم کورٹ کو بتایا کہ انہوں نے 6 نومبر 2019 کا ریلیز نوٹس دائر کیا تھا جبکہ اکاؤنٹ ہولڈر مبشرہ علی ملک نے بینک کو ہدایت دی کہ وہ ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ لندن کے 14 دسمبر 2018 کے اکاؤنٹ منجمد کرنے کے فیصلے پر عمل کریں، ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ایک کروڑ 99 لاکھ پاؤنڈز سپریم کورٹ رجسٹرار کے زیر انتظام اکاؤنٹ میں یہ رقم منتقل کر دی گئی۔
2019 میں نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خاندان سے 190 ملین پاؤنڈز رقم بر آمد کی تھی، جسے ریاست پاکستان کے حوالے کردیا گیا تھا۔
تاہم، یہ رقم بعد میں سپریم کورٹ کو منتقل کر دی گئی جس کے ساتھ پراپرٹی ٹائیکون نے دعویٰ کیا کہ یہ رقم کراچی میں ایک ہاؤسنگ اسکیم کے لیے اراضی حاصل کرنے کے لیے ادا کرنے والے 460 ارب روپے میں شامل کی جائے گی۔
اس وقت اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی سربراہی کرنے والے شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ 190 ملین پاؤنڈز میں سے 140 ملین پاؤنڈز منتقل کر دیے گئے ہیں، جب کہ بقیہ 5 کروڑ پاؤنڈز بعد میں ون ہائیڈ پارک کی فروخت کے بعد وصول کیے جائیں گے جس کے مالک ملک ریاض ہیں۔
بعد میں جائیداد فروخت کر دی گئی اور رقم پاکستان کو بھی بھیج دی گئی۔
حکومت سندھ رقم وصول کرے گی
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 35 ارب روپے وفاقی حکومت کو منتقل کرنے کے بعد اکاؤنٹ میں بچ جانے والی رقم حکومت سندھ کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروادی جائے گی۔
البتہ بحریہ ٹاؤن کے مالک کی نمائندگی کرنے والے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ ریئل اسٹیٹ ڈیولیپر نے 460 ارب روپے میں سے 65 ارب روپے جمع کروائے تھے۔
لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ بیرون ملک سے بھیجے گئے 35 ارب روپے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ادا کیے جانے والے 65 ارب روپے کی رقم کا حصہ ہے یا نہیں۔
شیڈول کے مطابق ہاؤسنگ اسکیم کو پہلے چار سالوں میں 25 ارب روپے کی ڈاؤن پیمنٹ کے ساتھ ڈھائی ارب روپےکی ماہانہ قسط جمع کروانے تھے، باقی رقم تین سالوں میں مساوی اقساط میں ادا کرنی تھی، یہ معاہدہ 2026 میں مکمل ہو جائے گا۔
عدالت نے حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر سنگین نتائج کا انتباہ دیا تھا، 2019 میں جاری ہونے والے فیصلے میں وضاحت دی گئی تھی کہ اقساط کی ادائیگی میں تاخیر پراپرٹی ٹائیکون کے خلاف نیب ریفرنس دائر کرنے کے لیے متحرک کردے گا۔
جمعرات کو سماعت میں سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیے کہ 16,896 ایکڑز کے بجائے بحریہ ٹاؤن کے پاس 11,747 ایکڑ ہے کیونکہ زمین کے بڑے حصے کو کراچی واٹر ایند سیوریج بورڈ کی جانب سے شروع کردہ منصوبوں کے لیے استعمال کیا جائے گا، جس میں گیس پائپ لائنز، قدرتی نالے، سڑکیں اور دیہات وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے برعکس سندھ ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے 81 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کے گزشتہ احکام کے مطابق ایک سروے کیا گیا جس سے انکشاف ہوا کہ ہاؤسنگ سکیم کے پاس 3,035.63 ایکڑ اضافی اراضی تھی کیونکہ ملیر اور جامشورو میں کل 19,931.63 ایکڑ اراضی اس کے قبضے میں ہے۔
سروے ٹیم کے مطابق ہاؤسنگ اسکیم کی طرف سے تجاوزات کی زیادہ تر اراضی بالترتیب جامشورو اور ملیر کے دیہہ مولے اور کاٹھور میں تھی۔
رپورت میں بتایا گیا کہ سلمان اسلم بٹ نے رپورٹ پر اعتراض کیا لیکن وہ مخصوص اعتراضات مرتب نہیں کر سکے مگر انہوں نے اس رپورٹ پر اعتراض کرنے کے لیے کچھ وقت مانگا۔