سندھ پولیس نے حلیم عادل شیخ کا گلا دبایا اور تشدد کیا، پی ٹی آئی کا الزام

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الزام عائد کیا ہے کہ سندھ پولیس نے دورانِ حراست سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ پر تشدد کیا ہے۔

تحریک انصاف نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر حلیم عادل شیخ کی ایک وڈیو جاری کی، جس میں ان کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ان کا گلا دبایا گیا، انہوں نے اپنی ٹانگ پر زخم کا نشان بھی دکھایا اور دعویٰ کیا کہ یہ سوجن ہے۔حلیم عادل شیخ کو اینٹی انکروچمنٹ فورس نے زمین پر قبضے کے معاملے میں گرفتار کیا تھا،آج انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کی عدالت میں پیش کیا گیا۔چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے مبینہ تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مجرموں کے ایک گروہ کی گرفت میں ہے، اس مافیا کو پتا ہے کہ انتخابات میں ان کا سیاسی انجام پورا ہونے والا ہے۔سینیٹ میں قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے الزام عائد کیا کہ حلیم عادل شیخ کے خلاف سندھ حکومت کا فسطائیت اور وحشیانہ سلوک کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی حلیم عادل شیخ کی وڈیو شیئر کی۔حلیم عادل شیخ کی بیٹی عائشہ حلیم عادل نے بھی متعدد ویڈیوز شیئر کیں اور الزام عائد کیا کہ ان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔انہوں نے ٹوئٹر پر وڈیوز جاری کرتے ہوئے لکھا کہ یہ حلیم عادل کی ٹانگ ہے، اور یہ مکمل طور پر سوجی ہوئی ہے، انہیں فوری طبی امداد کی ضرورت ہے کیونکہ وہ چل نہیں سکتے۔

عائشہ حلیم عادل نے لکھا کہ انہیں بنیادی حقوق فراہم کرنے کے بجائے، سندھ پولیس اور ان کے تفتیشی افسر نے ان پر مزید تشدد کیا اور گلا دبایا۔

ادھر اینٹی انکروچمنٹ فورس کے سینئر سپرنٹنڈنٹ ملک مرتضیٰ نے حراست میں اپوزیشن لیڈر پر تشدد کی تردید کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ حلیم عادل پر کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں ہوا۔

خیال رہے کہ ایک دن قبل، حلیم عادل شیخ کو دہشت گردی کے ایک مقدمے میں جیل حکام کی طرف سے ضمانت پر رہا ہونے کے چند منٹ بعد اینٹی انکروچمنٹ فورس نے حراست میں لے لیا تھا۔

کراچی سینٹرل جیل سے باہر آتے ہی ان کی گرفتاری عمل میں آئی تھی اور اینٹی انکروچمنٹ فورس کے اہلکار جو بظاہر جیل کے باہر ان کا انتظار کر رہے تھے وہ انہیں اٹھا کر لے گئے اور بعد میں انہیں انسداد تجاوزات پولیس اسٹیشن منتقل کردیا گیا اور زمین پر قبضے کے ایک اور کیس میں گرفتار دکھایا گیا۔

فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کے مطابق ایک سابق مختیارکار (ریونیو اہلکار) نے مبینہ طور پر 25 ایکڑ سرکاری زمین حلیم عادل شیخ اور دیگر 10 افراد کو سکیم 33 میں ایک کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے غیر قانونی طور پر الاٹ کی تھی اور نامزد افراد نے گودام قائم کر رکھے تھے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ انہیں سندھ پبلک پراپرٹی (ریموول آف انکروچمنٹ) ایکٹ 2010 کے تحت نوٹس جاری کیا گیا تھا، جس میں ان سے زمین خالی کرنے کا کہا گیا تھا لیکن انہوں نے زمین خالی نہیں کی۔

سندھ پبلک پراپرٹی ایکٹ 2010 کے سیکشن 8(1) کے تحت 29 اگست کو مختیارکار ذوالفقار علی منگی کی شکایت پر اینٹی انکروچمنٹ پولیس اسٹیشن ایسٹ میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

قبل ازیں، اے ٹی سی کے ایک جج نے پی ٹی آئی رہنما کی بعد از گرفتاری ضمانت اور جیل سے رہائی کی درخواست پر اپنا فیصلہ سنایا تھا۔

معزز جج نے 50 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت منظور کی تھی اور جیل حکام کو ہدایت کی تھی کہ اگر کسی اور کیس میں ان کی تحویل کی ضرورت نہیں تو انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔

پولیس کے مطابق حلیم عادل شیخ نے مبینہ طور پر انسداد تجاوزات آپریشن کے دوران اپنے معاون شہزادہ فہیم لغاری کو اینٹی انکروچمنٹ فورس کے ڈائریکٹر اور ان کی ٹیم پر فائرنگ کرنے کے لیے اکسایا تھا۔

عدالت نے حلیم عادل شیخ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا

اینٹی انکروچمنٹ فورس کے تفتیشی افسرنے حلیم عادل کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا اور پوچھ گچھ کے لیے ان کے 14 دن کے ریمانڈ کے لیے پولیس تحویل میں دینے کی درخواست کی۔

سماعت کے دوران پی ٹی آئی رہنما نے الزام لگایا کہ انہیں دہشت گردوں کے وارڈ میں رکھا گیا ہے۔

انہوں نے مزید الزام عائد کیا کہ انہیں دو دن سے کھانا نہیں دیا گیا، جیل حکام نے ٹانگ میں چوٹ کا علاج بھی نہیں کیا۔

پولیس حراست میں جسمانی ریمانڈ کی تفتیشی افسر کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے حلیم عادل شیخ کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ قانون کے تحت کسی بھی قانون ساز کو گرفتار کرنے سے پہلے سندھ اسمبلی کے اسپیکر سے این او سی لینا لازمی ہے لیکن ‘اے ای ایف’ ایسا کرنے میں ناکام رہا۔

وکیل نے مجسٹریٹ سے استدعا کی کہ ان کے موکل کو سندھ پولیس کی تحویل کے بجائے عدالتی تحویل میں دیا جائے۔

دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد مجسٹریٹ نے حلیم عادل شیخ کو دو ہفتوں کے لیے عدالتی تحویل میں دیتے ہوئے تفتیشی افسر کو اگلی تاریخ پر پیش کرنے اور 2 ہفتے بعد تحقیقاتی رپورٹ بھی پیش کرنے کی ہدایت کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں