سندھ میں مخنث افراد کیلئے تعلیمی پالیسی بنانے کا فیصلہ

صوبائی حکومت نے مخنث برادری کے لیے تعلیمی پالیسی تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا جس میں رسمی اور غیر رسمی تمام شعبہ جات کے ساتھ ہائیر ایجوکیشن کو بھی شامل کیا جائے گا۔

 رپورٹ کے مطابق باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے اس اقدام کا فیصلہ وزیر تعلیم سید سردار شاہ کی صوبائی مخنث کمیٹی کے وفد کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد کیا۔

وفد کے اراکین میں جینڈر انٹریکٹیو الائنس (جی آئی اے) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بندیا رانا، پروگرام منیجر زحرش خانزادی، رضاکار شہزادی رائے اور مورَت انٹریکٹو سوسائٹی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سارہ گِل شامل تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کے الٹرنیٹو لرننگ پاتھ وے پروگرام (اے ایل پی) میں مخنث افراد کو بھی شامل کیا جائے۔

2017 کی متنازع مردم شماری کے مطابق ملک بھر میں مخنث افراد کی تعداد 10 ہزار 418 ہے، اس مردم شماری کو مخنث کمیونٹی بھی مسترد کر چکی ہے۔

مخنث افراد کی بڑی تعداد سندھ میں آباد ہے، صوبہ سندھ 2 ہزار527 یا 24 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ پنجاب 64.4 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، ملک کے سب سے زیادہ مخنث افراد پنجاب میں آباد ہیں اور صوبے میں اس کیٹیگری کے 6 ہزار 709 افراد کی رجسٹریشن ہے۔

تاہم مخنث کے حقوق سے متعلق گروپ چیریٹی ٹرانس ایکشن پاکستان نے تخمینہ لگایا ہے کہ ملک بھر میں کم از کم 5 لاکھ مخنث افراد موجود ہیں۔

صوبائی وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے میڈیا کو بتایا کہ اے ایل پی، اسکول سے باہر بچوں کے لیے تجویز کردہ راستہ ہے جس کے ذریعے غیر رسمی نصاب کا استعمال کرتے ہوئے بچوں کو ڈھائی سال میں کِنڈر گارٹن سے گریڈ فائیو تک کی تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بعد ازاں یہ طلبہ سرکاری اسکولوں میں چھٹی جماعت میں حصہ لے لیتے ہیں یا اے ایل پی کے ہی دوسرے مرحلے میں چلے جاتے ہیں۔

سردار شاہ کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے حال ہی میں ’مڈل ٹیک اسٹریم ‘ کا آغاز کیا ہے، جس کے ذریعے طلبہ مڈل کلاس کے مضامین کے ساتھ ووکیشنل اسکِل پروگرام میں شرکت کرسکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اے ایل پی پروگرام صوبائی اسکول ایجوکیشن اور لیٹریسی ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے غیر رسمی تعلیم کے تحت نافذالعمل ہے۔

وزیر تعلیم سندھ نے کہا کہ سندھ پہلا صوبہ ہوگا جہاں مخنث افراد کے لیے تعلیمی پالیسی بنائی گئی ہے جہاں انہیں تعلیم اور تمام تر شعبہ جات کے حوالے سے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

جینڈر انٹریکٹیو الائنس سے منسلک زحرش نے میڈیا کو بتایا کہ مخنث افراد کے نمائندگان نے ملاقات میں صوبائی وزیر تعلیم کے سامنے تین مطالبات رکھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر تعلیم مخنث برادری میں سے اساتذہ کا تقرر کرتے ہوئے سرکاری ملازمتوں میں ان کے لیے 0.5 فیصد کوٹہ مقرر کرنے کا اعلان کرے۔

انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پنجاب کی طرز کا اسکولنگ نظام اختیار کریں جس کے تحت خواجہ سرا عمر کی حد کے بغیر 4 سال میں میٹرک کرسکتا ہے۔

تیسرا مطالبہ تعلیمی نصاب میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے تعارف کو شامل کرنے سے متعلق کیا گیا ہے، وفد کا کہنا تھا کہ ’ہم معاشرے میں بھیک مانگنے، ناچنے اور دیگر غیر اخلاقی کام کرنے جیسے دقیانوسی پیشوں سے جانے جاتے ہیں، جو کہ درست نہیں ہے‘۔

ان کا کہنا تھا مخنث افراد کوئی بھی شعبہ اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انہیں بھی یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں