اسرائیل سے تعلق استوار کرنے کےغیرمعمولی اقدام کے لیے پاکستان میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں سعودی عرب سے تعلقات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ بات پاکستان کے سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے عرب نیوز کے نمایندے فرینک کین کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہی ہے۔انھوں نے سعودی عرب میں جامع اصلاحات کے عمل کو سراہا ہے۔
شوکت عزیزپاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دورِحکومت میں پہلے وزیرخزانہ رہے تھے۔وہ 2004ء سے 2007ء تک ملک کے وزیراعظم رہے تھے۔انھوں نے اس انٹرویو میں پاکستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں ، سعودی عرب میں اصلاحات اور پاکستان کے ایران اور سعودی عرب سے دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے اظہارِخیال کیا ہے۔
سعودی عرب میں اصلاحات
شوکت عزیز نے سعودی عرب میں ویژن 2030ء کے تحت کثیر جہت جامع اصلاحات کے عمل کو سراہا ہےاورکہا ہے کہ مملکت نے کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد ضرورت سے بڑھ کراور مناسب سے زیادہ ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’’ساما (سعودی عرب کے مرکزی بنک) اور وزارت خزانہ میں ٹیکنوکریٹس کا معیار عالمی درجے کا ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ وہ دنیا کے 12 ممالک میں کام کرچکے ہیں اور انھون نے سٹی بنک کے بڑے ریجنوں کا انتظام کیا ہے۔
انھوں نے سعودی عرب میں ویژن 2030ء کے تحت اصلاحات کے پروگرام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ایک بہترین چیز ہے جو گذشتہ چند سال کے دوران میں ہوئی ہے۔‘‘
شوکت عزیز نے کہا کہ ’’سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایسی اصلاحات کو عملی جامہ پہنایا ہے جن کے بارے میں آپ قبل ازیں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’آج ڈھانچاجاتی اصلاحات کے ایجنڈے کی بنیاد پر وہ سعودی عرب کو دنیا کے سرکردہ ممالک میں شمار کرتے ہیں۔‘‘ویژن 2030ء کے تحت سعودی عرب کی معیشت کو متنوع بنانے کے لیے تمام شعبوں میں اصلاحات کی جارہی ہیں۔
ایران سے تعلقات
پاکستان کےسابق وزیراعظم نے کہا کہ ایران ایک بھرپور تاریخ کا حامل ملک ہے اور وہاں بہت سے سمجھ دار لوگ ہیں لیکن اس کو مذہبی قیادت فعال انداز میں چلا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ایران کے ساتھ تعلقات کے بارے میں حکمت عملی یہ رہی ہے کہ وہ ہمسایہ ملک کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت تعلقات چاہتا ہے اور کسی قسم کی کشیدگی نہیں چاہتا ہے۔‘‘
تاہم شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بڑی اہمیت اور منفرد حیثیت کے حامل ہیں اور اس کی خارجہ پالیسی میں مملکت کو بڑے بھائی ایسی اہمیت حاصل ہے۔دونوں ممالک ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘
انھوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر ہم کوئی ایسا کام کرگزرتے ہیں جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے تھا تو وہ ہمیں یہ کہتے ہیں:’’ارے دیکھیے جناب آپ نے یہ کیا کردیا۔‘‘
اسرائیل سے ممکنہ ڈیل
شوکت عزیز سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا پاکستان اور اسرائیل کے درمیان معمول کے تعلقات استوار کرنے کے لیے کوئی ڈیل ممکن ہے؟اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’’ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں داخلی طور پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ،اس کے بعدہی یہ غیرمعمولی اقدام کیا جاسکتا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ’’ کسی ملک سے تعلقات اب کوئی بڑا ایشو نہیں رہے ہیں کیونکہ گذشتہ برسوں کے دوران میں ہم نے ایسے تعلقات بنتے دیکھے ہیں۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ دروازے کھلے رکھے جانے چاہییں