انسداد دہشت عدالت کی جانب سے توہین مذہب کے نام پر سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے قتل کے کیس کا فیصلہ آج سنائے جانے کا امکان ہے۔
پریانتھا کمارا سیالکوٹ کی فیکٹری کے منیجر تھے جنہیں 3 نومبر کو فیکٹری ملازمین سمیت سیکڑوں مظاہرین پر مشتمل ہجوم نے توہین مذہب کے نام پر بہیمانہ تشدد کر کے قتل کردیا تھا۔
اگوکی پولیس تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ارمغان مقط کی درخواست پر راجکو انڈسٹریز کے 900 ورکرز کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، 297، 201، 427، 431، 157، 149 اور انسداد دہشت گردی قانون کے 7 اور 11 ڈبلیو ڈبلیو کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
واقعے پر ملک بھر کے سیاستدانوں، علما اور سول سوسائٹی کے اراکین کی جانب سے مذمت کرتے ہوئے ملزمان کی سزا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کی جانب سے 12 مارچ کو واقعے میں ملوث 89 افراد پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی، ان میں سے 80 ملزمان بالغ جبکہ 9 کم عمر تھے۔
جج نتاشا نعیم نے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں مقدمے کی سماعت کی تھی۔
کوڈ آف کریمنل پروسیجر (سی آر پی سی) کے سیکشن 342 کے تحت ملزمان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے تھے۔
مقدمے کی سماعت کے دوران سینئر خصوصی پراسیکیوٹر عبدالرؤف وٹو سمیت پانچ پراسیکیوٹر عدالت میں پیش ہوئے تھے، کیس کے چالان میں 46 عینی شاہدین کا بیان شامل کیا گیا تھا۔
چالان کے مطابق ویڈیوز، ڈیجیٹل شواہد، ڈی این اے، فرانزک شواہد، عینی شاہدین اور پریانتھا کمارا کو ہجوم سے بچانے والے ان کے ساتھی کے بیان کو تحقیقات کا حصہ بنایا گیا تھا۔
چالان میں 46 چشم دید گواہوں کے بیانات، 10 سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز، 55 ملزمان کے موبائل فون سے ملنے والی ویڈیوز کو شامل کیا گیا ہے۔