پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو مخاطب کر کے اپنے اسلام آباد میں توشہ خانہ کیس کے لیے پیش نے ہوسکنے کی وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس نے انھیں عدالت پیشی سے روکنا اور ان کے کارکنوں کو اشتعال دلایا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں پولیس کے ذرائع بے بتایا ہے کہ اس روز انھیں قتل کرنے کا مکمل منصوبے بنایا گیا تھا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ’مجھے پتا چلا کہ مجھ پر توہینِ عدالت لگی گئی ہے میں اسلام آباد ہائی کے جج کو بتانا چاہتا ہوں کہ دیکھیں میرے ساتھ ہوا کیا ہے۔ ‘
انھوں نے چیف جسٹس ہائی کورٹ کو وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ ’مجھے پاچ گھنٹے ٹول پلازے پر لگے۔ مجھے سارا راستہ ناکوں پر روکا گیا۔ میں ذہنی طور پر تیار تھا کہ آج یہ مجھے پکڑ لیں گے۔کیونکہ جو انھوں نے زمان پارک میں کیا۔ جس طرح کی فوج وہاں اکٹھی کی ہوئی تھی ایسے کسی سیاستدان کے لیے آئی ہے؟‘ انھوں نے مزید بتایا ’جیسے جیسے میں پاس آتا گیا میں نے دیکھا پولیس کے نفری بڑھتی گئی۔ ہم پر آنسو گیس پھینکی گئی۔ کوئی کچھ کر نہیںی رہا تھا کہ آنسو گیس کیوں پھینکی۔ صرف اشتعال دلانے کے لیے۔ ‘
عمران خان کا کہنا تھا ’یہاں لاہور ہائی کورٹ میں بھی کارکنوں کے ساتھ گیا یہاں تو کچھ نہیں ہوا۔ کارکن باہر رہے میں عدالت کے اندر گیا۔ یہاں کیا مشکل تھی کہ عدالت سے چند میل پہلے سے آنسو گیس کی شیلنگ ہوئی۔ ‘
انھوں نے ززید دعوی کیا کہ جب وہ عدالت کے دروازے پر پہنچے تو اندر سے پولیس نے پتھر مارنا شروع کیے۔ انھوں نے اس موقعے پر پولیس کی جانب سے پتھر پھینکنے کی ویڈیو بھی نشر کی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ نیچے سے تو پتھر اوپر جا نہیں سکتا تھا۔ تو کیوں مار رہے تھے۔ وہ کس سے اپنا دفاع کر رہے تھے۔ میں 40 منٹ دروزے پر کھڑا رہا۔ جب معاملہ ذرا سنبھلا تو میں نے اندر گھسنے کی کوشش کی۔‘
’چیف جسٹس صاحب ادب سے کہتا ہو ایسا کبھی کسی سیاستدان کے ساتھ ہوا۔ جو وہاں مناظر تھے۔ ‘
’انھوں نے مرتضیٰ بھٹو طرز کا قتل کرنا تھا‘
عمران خان کا کہنا تھا ’ہم جان بچا کر نکلے۔ ان کا منصوبہ تھا۔ اتنی پولیس، فوج اور نامعلوم افراد تھے وہاں۔ انھوں نے مرتضیٰ بھٹو ٹائپ قتل کرنا تھا۔ اور نورا کشتی کے بعد کہنا تھا تصادم میں مارا گیا۔ ‘
عمران خان نے دعوی کیا کہ انھیں پولیس والوں نے ہی بتایا کہ نامعلوم لوگوں نے سی ٹی ڈی کی وردی پہنی تھی۔
انھوں نے کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس کے کلوز سرکٹ کیمروں کی فوٹیج بھی نکال کر لے گئے۔ عمارت کو 24 گھنٹے پہلے سکیور کیا گیا۔ ‘
انھوں نے سوال کیا ’وہاں کون آ رہا تھا۔ کوئی دہشت گرد آ رہا تھا۔ مجھے پولیس کے اندر سے منصوبے کی تصفیلات ملیں۔ ہوسکتا ہے یہ آج آپریشن کریں۔ جو ہو رہا ہے سمجھ سے باہر ہے۔‘
انھوں نے استفسار کیا کہ ’یہ کون کر رہا ہے، کس کو خوف ہے کون اتنا طاقتور ہے۔‘
’ان کا منصوبہ ہے پنجاب پولیس کے اہلکاروں کو ماریں گے‘
انھوں نے دعوی کیا کہ ان کے خلاف ایک اور منصوبہ بنایا گیا ہے۔ انھوں نے عدلیہ اور پنجاب پولیس کو زحاطب کر کے کہا کہ وہ انھیں بتا رہے ہیں۔
انھوں نے دعوی کیا کہ ’آئی جی اسلام آباد اور آئی جی لاہور اس کے پیچھے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ ’زمان پارک کے باہر آج یا کل آپریشن کا پروگرام ہے۔ انھوں نے یہاں چار پانچ پولیس والے مارنے ہیں۔ ہمارے لوگوں میں بندے بھیج کر یہ پولیس والے قتل کریں گے۔ پھر ان کی طرف سےرد عمل ہوگا اور ماڈل ٹاؤن جیسی کارروائی کریں گے اور وہاں مجھے مرتضی بھٹو کی طرح قتل کریں گے۔ ‘
انھوں نے کہا ’میں پولیس کو بتا رہا ہوں یہ آپ کے بندے ماریں گے۔ ‘
اس موقعے پر انھوں نے پی ٹی آئی کے کارکنوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی۔ ’میں کارکنوں سے کہتا ہوں کہ آپ نے کچھ نہیں کرنا۔ اس بار یہ آپ کو اشتعال دینے کی کوش کریں ۔ آپ نے کسی قسم کا رد عمل نہیں دینا۔ پولیس سے کہنا ہے کہ آئیں اور جو بات کرنی ہیں یا نیا وارنٹ لے کی آئیں ہیں تو میرے پاس آئیں۔ مجھے جیل جانا ہوا میں جاؤں گا۔ لیکن میں اپنے لوگوں کا قتل عام نہیں چاہتا۔ ‘
عمران خان نے کہا کہ ’ان کے پلان فیل ہوتے رہے اب یے انتہا پسندی پر چلے گئے ہیں۔ یہ کون لوگ ایسے کر رہے ہیں۔ ایسے تو دشمن بھی نہ کریں۔ ‘