رومانوی کشش کا حامل پیرس ایک انوکھے مسئلے سے دوچار

دو صدیاں پہلے فرانسیسی کسانوں نے پیرس میں زمین کے نیچے مشرومز یا کھمبیاں اگانے کا ایک انقلابی طریقہ ایجاد کیا تھا۔ لیکن آج اس منفرد زرعی ورثے کا تسلسل ماہر کسانوں کی کمی کے باعث خطرے میں پڑ چکا ہے۔

دنیا بھر میں رنگوں، خوشبوؤں، رومانوی ماحول اور منفرد ثقافت کے مرکز کی حیثیت سے غیر معمولی حد تک مقبول فرانسیسی شہر پیرس کو سیاسی طور پر انقلابوں کا شہر بھی مانا جاتا ہے۔ یورپی تاریخ پیرس سے شروع ہونے والے کئی انقلابوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ چند صدیاں قبل پیرس میں ہی فرانسیسی کسانوں نے چونے کے پتھر کے کانوں کی بھول بھلیوں میں کھمبیوں کی پیداوار کا ایسا تجربہ کیا، جو مشرومز کی کاشت میں ایک انقلاب کی وجہ بن گیا۔ یہ کسان نہ صرف بہت ہی خاص قسم کی کھمبیوں کی کاشت میں کامیاب رہے بلکہ بعد میں مشرومز کی اس قسم کو ایک باقاعدہ قومی ثقافتی ورثہ بھی مانا جانے لگا۔ آج کھمبیوں کی ایسی انوکھی کاشت کا سلسلہ معدوم ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ایسی مشرومز اگانے والے بس مٹھی بھر کسان ہی باقی بچے ہیں۔

فرانس میں کھمبیوں کی مانگ

فرانسیسی معاشرہ اپنی کئی دیگر روایات اور اقدار کے ساتھ ساتھ اپنے فوڈ کلچر کے اعتبار سے بھی نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ فرانس میں روایتی طور پر اگائی جانے والی سفید ‘بٹن مشرومز‘ اور انہی کے نباتاتی خاندان سے تعلق رکھنے والی براؤن مشرومز کی مانگ ہمیشہ کی طرح آج بھی بہت زیادہ ہے۔ پیرس کے  پر رونق مغربی حصے لا ڈیفانس سے تھوڑے سے فاصلے پر واقع ‘کارے سو سین‘ نامی علاقے کے ایک کسان شوا مووا وینگ کہتے ہیں، ”مسئلہ گاہک تلاش کرنے کا نہیں، میں جو کچھ بھی اگاتا ہوں، اسے فروخت کر سکتا ہوں۔‘‘ وینگ پیرس کے ایک علاقے میں کھمبیوں کی زیر زمین کاشت کی سب سے بڑی غار چلاتے ہیں، جو دراصل دریائے سین کو اوپر سے جھانکتے ہوئے پہاڑ کے دامن میں ڈیڑھ ہیکٹر رقبے پر پھیلی ہوئی سرنگوں کا ایک جال ہے۔ وہ پیرس کے چند نامور اور انعام یافتہ شیفس کے ساتھ ساتھ مقامی سپر مارکیٹوں کے گاہکوں کو بھی اپنے صارفین میں شمار کرتے ہیں۔ ان کی اگائی ہوئی کھمبیاں ہول سیل مارکیٹ میں تقریباﹰ ساڑھے تین یورو فی کلوگرام کی قیمت پر بکتی ہیں، جو اکفی زیادہ قیمت ہے۔

کارکنوں کی کمی

وینگ کو حال ہی میں ایک بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی پھپھوندی جیسی مشرومز کی، جنہیں ‘سانپ کی چھتری‘ بھی کہا جاتا ہے، سینکڑوں کلو گرام پیداوار اس لیے ضائع ہونے لگی تھی کہ ان کے پاس اس پیداوار کو چن کر جمع کرنے کے لیے کافی تعداد میں کارکن نہین تھے۔ تب صرف 11 کارکن کام پر آ سکے جبکہ باقی تمام بیماری کے سبب غیر حاضر تھے۔ شوا مووا وینگ کہتے ہیں، ”تب دن بھر گہرا اندھیرا چھایا رہتا اور ایسے میں کارکن پورا دن کام نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ تب وینگ کو خدشہ لاحق رہا کہ ان کی کھمبیوں کی یومیہ پیداوار معمول کی ڈھائی ٹن سے بہت کم  ہو کر صرف تقریباﹰ ڈیڑھ ٹن تک ہی رہے گی۔

وینگ فرانس کے ایسی نایاب کھمبیاں کاشت کرنے والے ان پانچ کسانوں میں سے ایک ہیں، جنہیں مقامی طور پر ‘چیمپئنز آف پیرس‘ کہا جاتا ہے۔ پیرس کے شمال میں عرصے سے استعمال میں نہ رہنے والی کانوں سے کھمبیوں کی پیداوار تو اور بھی کم ہو چکی ہے۔

تاریخی پس منظر

انیسویں صدی کی آخر میں ایسے کاشت کاروں کی تعداد 250 تک تھی۔ اس وقت کسانوں کی بڑی تعداد ‘شاہی مشروم‘ کی طرف متوجہ ہوئی۔ تب مشروم کی اس قسم کی بہت زیادہ کاشت بادشاہ لوئی چہاردہم نے ویرسائے میں شروع کرائی تھی۔ اسے غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ تب کسانوں نے یہ بات بھی پتہ چلا لی تھی کہ درجہ حرارت، نمی اور اندھیرا کیسے ہوں تو اس کھمبی کی کافی زیادہ پیداوار سال بھر حاصل کی جا سکتی ہے۔

ان مخصوص شرائط کے تحت مشرومز کی پیداوار کے دوران غاروں کی مٹی کی فضا میں، جو کہ کھاد کو زمینی چونے کے پتھر سے ڈھانپے رکھتی ہے، بالآخر ایسی مشرومز اگائی جا سکتی ہیں، جن کا ذائقہ ایسے ہوتا ہے جیسے کسی خشک میوے کا مغز اور ایسی کھمبیوں میں پانی کا تناسب بھی بہت کم ہوتا ہے۔

پیرس کی کشش

فرانسیسی دارالحکومت پیرس اپنے بے شمار دلچسپ ثقافتی اور تاریخی مقامات، عجائب گھروں اور قدرتی حسن کا ملا جلا شاہکار ہے۔ اس کے وہ بہت سے زیر زمین راستے اور سرنگیں جو اب سیاحوں کے لیے بڑی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں، ماضی میں وہ سب بھی کبھی کھمبیوں کی زیر زمین کاشت ہی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

پیرس شہر کے تیز رفتار پھیلاؤ اور خاص طور پر اس شہر میں زیر زمین میٹرو نیٹ ورک کی تعمیر نے 1900ء کی دہائی کے شروع میں کھمبیوں کے کاشت کاروں کو اس شہر سے باہر دھکیلنا شروع کر دیا تھا۔ پھر بھی 1970ء کی دہائی میں بھی شہر کے مضافاتی علاقوں میں پچاس کے قریب زیر زمین کانیں ایسی تھیں جہاں کھمبیاں اگائی جاتی تھیں اور جنہیں اکثر نسل در نسل لیکن کوئی نہ کوئی مخصوص خاندان ہی چلاتا تھا۔

جدید دور میں مشرومز کی بیرون ملک سے سستی درآمد نے مقامی طور پر ایسی کمیاب اور قیمتی کھمبیوں کی کاشت اور پیداوار کے مواقع مزید کم کر دیے۔ اب نیدرلینڈز، پولینڈ اور چین میں کھمبیوں کے کاشت کار چونے کے پتھر کے بجائے دلدلی کیچڑ استعمال کرتے ہیں، جس سے مجموعی پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ فرانس میں دیہی ترقیاتی ایجنسی SAFER سے منسلک زرعی امور کے ماہر موریل لے لوآر کہتے ہیں، ”اب ہمارے ہاں زرعی اسکول میں ایسی مشرومز کی کاشت کی تربیت کا کوئی پروگرام نہیں۔ ایسے افراد کو تلاش کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے، جو ایسی روایتی کاشت کاری کے سلسلے کو اپنے ہاتھوں میں لے سکیں۔‘‘

فرانس میں کھمبیوں کی مجموعی سالانہ پیداوار 90 ہزار ٹن تک رہتی ہے۔ اس میں پیرس اور اس کے گرد و نواح میں روایتی طریقے سے اگائی گئی مشرومز کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں