یوکرین پر روس کے حملے کے دو ماہ بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے دعویٰ کیا ہے کہ ماسکو پہلے سے کہیں زیادہ تنہا ہوگیا ہے جو خواہش مندانہ سوچ کے مانند نظر آتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ماسکو کا بائیکاٹ کرنے کے اقدامات میں بین الاقوامی برادری کے ایک طبقے کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے جو اس معاملے پر ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
فرانسیسی انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات اور اسٹریٹجک امور کے ڈپٹی ڈائریکٹر سلوی میٹیلی کا کہنا ہے کہ ’مغربی بلاک سے روس کی ایک واضح تنہائی ہے، اس کی ایک خاص وجہ تجارتی اور مالیاتی تبادلے کو پیچیدہ بنانے والی مسلسل پابندیاں ہیں‘۔
فرانسیسی محقق نے مزید کہا کہ ’جہاں تک بین الاقوامی منظر نامے پر روس کی تنہائی کا تعلق ہے تو صورتحال بالکل مختلف ہے، بہت سے محتاط ممالک نے مغربی دباؤ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے‘۔
24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملے کے بعد یورپ اور شمالی امریکا میں فوری طور پر غم و غصے کو ہوا دی، جہاں رہنماؤں نے ماسکو کو تنہا کرنے اور اس پر ’بے مثال‘ پابندیاں عائد کرنے کا عزم کیا۔
اس کے بعد آنے والے ہفتوں میں نیٹو اور یورپی یونین کی فضائی حدود روسی طیاروں کے لیے بند کر دی گئیں اور امریکا نے روسی تیل اور گیس کے ساتھ ساتھ سمندری غذا، ووڈکا اور ہیروں کی درآمد پر پابندی کا حکم دے دیا۔
علاوہ ازیں کچھ روسی بینکوں کو سوئفٹ بین الاقوامی ادائیگی کے نظام سے خارج کر دیا گیا اور سیکڑوں اہم شخصیات کو یورپی سرزمین پر قدم رکھنے سے منع کردیا گیا۔
تاہم مغرب کے باہر ردعمل زیادہ محتاط رہا ہے، 2 مارچ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت اور جنوبی افریقہ، یوکرین سے روس کے انخلا کے مطالبے کے لیے ووٹنگ کے دوران غیر حاضر رہے۔
امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے جوہانسبرگ یونیورسٹی کے پروفیسر کرس لینڈسبرگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لاطینی امریکا میں برازیل اور میکسیکو نے پابندیوں میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے جو مغرب کے ساتھ قریبی تعاون کے خواہشمند ہیں اور انہیں مغربی تعاون کی ضرورت ہے‘۔
بھارت اور جنوبی افریقہ میں چلی کے سابق سفیر جارج نے کہا تھا کہ ’یوکرین پر حملے کی مذمت کرنا اور روس کے خلاف اقتصادی جنگ شروع کرنا دو الگ باتیں ہیں اور جنوبی امریکا، افریقہ اور ایشیا کے بہت سے ممالک اس لائن کو عبور کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ایسی پوزیشن میں نہیں جانا چاہتے جو ان کے اپنے مفادات، معاشی یا کسی اور طرح کے خلاف ہو‘۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا معاملہ بھی یہی ہے، جنہوں نے اب تک روس کے خلاف مؤقف اختیار کرنے سے گریز کیا ہے۔
بات جاری رکھتے ہوئے سفیر نے کہا کہ بھارت کے لیے بھی یہی کہا جاسکتا ہے جس نے فروری میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روسی حملے کی مذمت میں ووٹنگ کے دوران پرہیز کیا۔
سابق مشیر قومی سلامتی شیو شنکر نے کہا کہ ’جنگ نے بھارت کے لیے مغرب اور روس کے درمیان ایک سخت اور ناپسندیدہ انتخاب کھڑا کر دیا ہے، ایک ایسا انتخاب جس سے بچنے کے لیے اس نے ہر ممکن کوشش کی ہے‘۔
انہوں نے اپریل کے شروع میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’امریکا، بھارت کی جدت پسندی میں ایک لازمی اور ناگزیر شراکت دار ہے لیکن روس جغرافیائی سیاسی اور فوجی وجوہات کی بنا پر ایک اہم شراکت دار ہے‘۔