اسلام آباد ہائیکورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کے بیان حلفی سے متعلق کیس میں رانا شمیم سمیت دیگر فریقین کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 روز میں جواب طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سپریم ایپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم کے بیان حلفی پر خبر شائع کرنے کے معاملے کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری، دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی اور اٹارنی جنرل پاکستان سمیت دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالتی نوٹس کے باوجود سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم عدالت میں پیش نہیں ہوئے تاہم ان کا بیٹا عدالت میں پیش ہوا۔
رانا شمیم کے بیٹے نے عدالت کو بتایا کہ والد صاحب رات اسلام آباد پہنچے ہیں اور ان کی طبیعت ٹھیک نہیں۔
کمرہ عدالت میں ویڈیو چلانے کی درخواست
رانا شمیم کے بیٹے نے عدالتی عملے سے کمرہ عدالت میں ویڈیو چلانے کی اجازت مانگی جسے مسترد کردیاگیا۔
بعد ازاں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت کا آغاز کرتے ہوئے ایڈیٹر انچیف کو روسٹرم پر بلایا، اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیٹر انچیف سے مکالمہ کیا کہ بہت بھاری دل کے ساتھ آپ کو سمن کیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ سوشل میڈیا اور نیوز پیپرز میں فرق ہوتا ہے، اخبارکی ایڈیٹوریل پالیسی اور ایڈیٹوریل کنٹرول ہوتا ہے، اس ہائیکورٹ کے جج سے متعلق بات کی گئی جو بلاخوف وخطر کام کرتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر میں اپنے ججزکے بارے میں پراعتماد نا ہوتا تو یہ پروسیڈنگ شروع نا کرتا، اس عدالت کے ججز جوابدہ ہیں اور انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگرعوام کا عدلیہ پر اعتماد نا ہوتو پھرمعاشرے میں انتشار ہوگا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ایک سابق چیف جج نے کوئی بیان حلفی دیا تو آپ وہ فرنٹ پیج پرچھاپیں گے؟
جسٹس اطہر من اللہ نےکہا کہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا جیسا آپ سوچ رہے ہیں، مسلسل یہ بات کی جارہی ہے کہ کہا گیا الیکشن سے پہلے نواز شریف اور مریم کو نہ چھوڑا جائے، کم از کم آپ ہمارے رجسٹرار سے پوچھ لیتے۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر یہ تاثر ہے کہ رانا شمیم سے منسوب بیان حلفی جھوٹ پر مبنی ہے یا جعلی ہے لیکن یہ سارا معاملہ میری عدالت سے متعلق ہے، اپنی عدالت کے بارے میں جواب دہ ہوں، اس لیے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کررہے ہیں۔
عدالت نے رانا شمیم سمیت تمام فریقین سے 7 روز میں جواب طلب کرلیا اور کیس کی سماعت 10 روز تک ملتوی کی ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ تمام لوگ 26 نومبر کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں۔
اس موقع پر روسٹرم پر موجود دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی نے کہا کہ آپ میرے خلاف کارروائی کریں، میں نے یہ اسٹوری کی ہے اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھائی ہیں، رانا شمیم سے تصدیق کرکے اسٹوری کی گئی، میری اسٹوری میں جج صاحب یا عدالت کا نام نہیں تھا ، میرا کام یہ تصدیق کرنا تھا کہ حلف نامہ اصل ہے یا نہیں ، میں نے جج صاحب سے اس کی تصدیق کی وہ اپنے اس بیان پر قائم ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایڈیٹر اور ایڈیٹر انچیف کو بھی نوٹس کریں گے، آپ نے جو کچھ کہنا ہے جواب میں لکھ کر بتائیں۔