ہمارا ملک پچھلے پچھتر 75برس سے مصیبتوں کا شکاررہا ہے۔ شاید ہی کوئی دورایسا ہوگا کہ جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہو کہ یہ استحکام کا دور تھا۔جنرل ایوب خان کے دور کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے دور میں پاکستان معاشی اور سیاسی طورپر مستحکم رہا ہے لیکن ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ ایوب دور میں ھی درحقیقت پاکستان کے ٹوٹنے اور دولخت ہونے کی بنیاد پڑی۔اس دور میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں بڑھیں۔ نفرتیں پید اہوئیں اور ملک کے دونوں حصوں میں اعتماد کا رشتہ ختم ہوا۔مشرقی پاکستان 1971ء میں بنگلہ دیش بن گیا۔
پاکستان ٹوٹنے کے بعد بچے کچھے پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹو نے اقتدار سنبھالا۔ اس دور میں کامیابیاں حاصل ہوئیں لیکن 1977 ء کے عام انتخابات نے پھر ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا۔ جولائی 1977ء میں فوج نے ٹیک اوور کرلیا۔ اگلے گیارہ سال تک جنرل ضیاء الحق اقتدار میں رہے۔ان کی حکومت کا خاتمہ ان کے جہاز کے کریش ہونے اور چند دوسرے جرنیلوں کے ساتھ ان کی موت پر ہوا۔ نوے کی دھائی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)ضیاء الحق کے دور کے ترمیم شدہ آئین کے ڈھانچے پر ایک دوسرے سے دست وگریبان رہیں۔ملک سفارتکاری طور پر پیچھے چلا گیا۔ جنرل مشرف کے ٹیک اوورسے یہ دور ختم ہوا۔
جس سے 2008ء میں ایک نئے بحرانی دور کا آغاز ہوا اس میں بھی پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر آگے نہیں بڑھ پایا۔ کرپشن اورسیاسی مفادات کا ایک ایسا افسوسناک کھیل شروع ہوا جس نے ملک کی چولیں ہلا کررکھ دیں۔
2018ء میں عمران خان کو اس توقع کے ساتھ اقتدارمیں لیا گیا کہ وہ ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دے گا اور کرپشن کا خاتمہ کرے گا لیکن یہ خواب بھی پورانہیں ہوا۔
اب پھر ملک ایک ایسی صورتحال میں چلا گیا ہے کہ جہاں کنفوژن کے علاوہ کچھ نظرنہیں آرہا۔ عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعہ اقتدارسے الگ کرایا گیا۔ جو نئی حکومت شہباز شریف کی قیادت میں بنی ہے اس کی کوئی واضح سمت نظرنہیں آرہی ہے۔ ملک معاشی تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔شہباز صاحب کی مخلوط حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ تباہ حال معیشت کو سنبھالنے کے لیے سخت فیصلے کریں یا پھر الیکشن کرائیں اورسب کچھ ایک عبوری حکومت کے ذریعے کر کے انتخابی میدان میں اتریں۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام انتظارکررہے ہیں کہ فیصلہ کیا ہوگا۔ ہر گزرتادن ملک کو مشکلات میں پھنساتا چلاجارہا ہے۔ حکومت فیصلہ نیہں کرپارہی۔مشورے ہورہے ہیں لیکن فیصلہ نہیں ہورہا۔ کسی شاعر نے کہا ہے کہ
ارادے باندھتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے
ملک افراتفری کا شکار ہےاورلیڈروں کی طرف سے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آرہا۔ پاکستان کی ایسی حالت پہلے کبھی نہ تھی۔