جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے متنازع 26 ویں آئینی ترمیم کی حمایت کے لیے تمام کوششوں کو ناکام اور حکومتی منصوبوں کو رد کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکمرانوں نے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال جاری رکھا تو وہ مذاکرات ختم کردیں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے یہ الٹی میٹم اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر جے یو آئی-ف اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان 2 گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات کے بعد دیا۔
اس سے قبل میڈیا رپورٹس اور سیاسی رہنماؤں کے بیانات سے عندیہ مل رہا تھا کہ ترمیم کے مسودے پر تقریباً اتفاق رائے ہو گیا ہے، مولانا فضل الرحمٰن کی بالکل مختلف پوزیشن کے نتیجے میں وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے رات گئے ان سے ملاقات کی اور ان کو منانے کی کوشش کی۔
رات گئے تین دنوں میں تیسری پریس کانفرنس کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن نے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تن تنہا ہی بازی کو پلٹ دیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ مجوزہ آئینی ترمیم دو تین ہفتوں سے زیر بحث ہے اور اس پر مشاورت کا عمل جاری ہے، ہم نے پوری فراخدلی کے ساتھ حکومت سے مذاکرات کیے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کا جو مسودہ ہمارے پاس آیا تھا ہم نے اسے یکسر مسترد کردیا تھا اور ہم آج بھی اسے مسترد کرتے ہیں، اگر افہام و تفہیم کے ساتھ مذاکرات کیے جاتے ہیں اور ہم آگے بڑھتے ہیں تو ہم نے انہیں اس کے لیے انہیں خوش آمدید کہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دو دن قبل کراچی میں بلاول بھٹو زرداری سے ان کی رہائش گاہ پر اس حوالے سے چار پانچ گھنٹے تفصیلی گفتگو کی اور ترمیم کی ہر ایک شق کو زیر بحث لائے، جن چیزوں پر اتفاق ہوا ہم نے اس کا بھی میڈیا کے سامنے اعلان کیا اور کچھ چیزیں تھیں جو مشاورت کے قابل ہیں اور جن پر مشاورت ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ کل جب نواز شریف صاحب کی رہائش گاہ پر مذاکرات ہوئے تو پیپلز پارٹی کے صدر مملکت آصف علی زرداری، بلاول بھتو زرداری، نواز شریف، وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی پوری ٹیم کے ساتھ طویل مشاورت ہوئی اور وہاں بھی کچھ حصوں پر اتفاق رائے ہو گیا اور کچھ چیزیں پھر بھی اس قابل تھیں کہ مشاورت جاری رکھی جائے اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم متنازع شقوں پر بھی مفاہمت کے قریب ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ آج ہماری تحریک انصاف کی ٹیم کے ساتھ ملاقات تھی، ان کی قیادت یہاں تشریف لائی، ہم نے ساری صورتحال سے ان کو آگاہ کیا کیونکہ وہ اپوزیشن کی بڑی جماعت ہے اور ایک بڑی جماعت کو اتنی بڑی آئینی ترمیم کے معاملے پر لاتعلق نہیں رکھا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں اس ترمیم کو حتمی شکل دینے میں بہت سی چیزیں رکاوٹ رہی ہیں، وہیں یہ رکاوٹ بھی رہی ہے کہ یہ متفقہ ہونی چاہیے اور اس میں صرف جے یو آئی کو نہیں بلکہ پوری اپوزیشن کو آن بورڈ لیا جائے اور ہم اس کو ایک متفقہ ترمیم تک لے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کا اس ترمیم کے بارے میں بہت مثبت رویہ رہا ہے اور معقول اور قابل قبول چیزوں پر ان کا کوئی معاندانہ رویہ نہیں ہے، ان چیزوں کو قبول کیا جا سکتا ہے اور آج قبول بھی کیا گیا ہے، کچھ چیزیں جن پر مشاورت درکار ہے ان کے حوالے سے یہ طے ہوا ہے کہ ان پر مشاورت کل بھی جاری رہے گی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں حکومت اور پیپلز پارٹی سے بھی یہی کہنا چاہتا ہوں کہ جو خصوصی کمیٹی بنائی گئی ہے اور جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہے، اس میں مزید نمائندگی بڑھائی جائے، اس میں پاکستان بار کونسل کے نمائندوں کو ہونا چاہیے، اس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نمائندے کو بھی ہونا چاہیے یا اس حوالے سے کوئی میکانزم بن سکتا ہے، وہ اسٹیک ہولڈرز ہیں تو ان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی میں تمام جماعتوں کے ڈرافٹ پر کھلی بحث کی جائے تاکہ ہم اتفاق رائے تک پہنچ سکیں لیکن ہمیں ایسی رپورٹس مل رہی ہیں کہ جیسے ہمارے مفاہمت کے رویے کو حخومت آسان ہیں لے رہی، ایک طرف ہمارے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں اور دوسری جانب ہمارے پارلیمنٹ کے اراکین کو ہراساں کیا جا رہا ہے، کسی کو اغوا کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام کے ایک آدھ اراکین پارلیمنٹ تو اس وقت اغوا ہو چکے ہیں، ان کے بچے میرے گھر پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک کو دھمکیاں دی گئیں، ایک کو بڑی بڑی رشوتوں کی پیشکش کی گئی لیکن اگر حکومت کا یہ رویہ رہتا ہے جیسا آج شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہوا، اختر مینگل کی خاتون رکن نے بیان دیا ہے کہ اس پر کتنا دباؤ ہے، ان کے رکن سینیٹ کی طرف سے بھی شکایات آ رہی ہیں۔