حمزہ شہباز پیر تک بطور ‘ٹرسٹی’ وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر حمزہ شہباز کو پیر تک بطور ٹرسٹی وزیراعلیٰ کام کرنے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچنے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الہٰی کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔


سماعت کے دوران پیش رفت:

  • سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کو پیر تک ‘ٹرسٹی’ وزیراعلیٰ رہنے کا حکم دیا۔
  • حمزہ شہباز کو سیاسی فائدہ کے اختیارات استعمال کرنے سے روک دیا۔ -چیف جسٹس نے کہا کہ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آرٹیکل 63-اے کے فیصلے کے خلاف ہے۔ -عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کو طلب کیا تاہم ان کے وکیل پیش ہوئے۔
  • عدالت نے حمزہ شہباز، اٹارنی جنرل، پنجاب ایڈووکیٹ جنرل اور چیف سیکریٹری پنجاب کو بھی نوٹس جاری کیا۔
  • عدالت میں ہجوم کی وجہ سے سماعت میں مختصر وقفہ کیا گیا۔
  • اگلی سماعت پیر کو اسلام آباد میں ہوگی۔

سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد جاری حکم نامے میں کہا کہ حمزہ شہباز آئین اور قانون کے مطابق کام کریں گے اور بطور وزیراعلیٰ وہ اختیارات استعمال نہیں کریں گے، جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہوگا۔

ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے عدالت عظمیٰ سے مزید وقت کی استدعا کی اور کہا تھا کہ وہ تحریری جواب عدالت میں جمع کروانا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ انتہائی اہم ہے اور ہم چاہتے ہیں جتنی جلدی ہو سکے اس کا فیصلہ کردیں۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے تاہم عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

چوہدری پرویز الہٰی کے وکیل علی ظفر نے عدالت سے استدعا کی کہ حمزہ شہباز کو کابینہ بنانے سے روک دیا جائے، جس پر عدالت کی جانب سے کہا گیا وہ مختصر ترین کابینہ رکھ سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے سماعت پیر تک ملتوی کردی جبکہ چوہدری پرویز الہٰی کے وکیل نے استدعا کی تھی کہ اتوار کو بھی سماعت کی جائے تاہم بینچ نے کہا کہ اگر اتوار کو سماعت کی جاتی ہے اور مکمل نہیں ہوتی ہے تو معاملہ پھر پیر کو جائے گا۔

عدالت نے کہا کہ درخواست سماعت پیر کو اسلام آباد میں ہوگی اور جب تک حمزہ شہباز بطور ٹرسٹی وزیراعلیٰ کام کریں گے اور ضروری تبادلے قانون کے مطابق کی جائے۔

پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت

قبل ازیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے حوالے سے مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت شروع کی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کو طلب کیا گیا تھا، جس پر ان کے وکیل عرفان قادر عدالت میں پیش ہوئے۔

گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران ڈپٹی اسپکر دوست محمد مزاری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت رولنگ دیتے ہوئے مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹس مسترد کر دیے تھے جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار اور رہنما مسلم لیگ (ق) چوہدری پرویز الہٰی نے رولنگ مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

پرویز الہٰی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گزشتہ روز وزیر اعلی کا انتخاب ہوا، حمزہ شہباز نے 179 جبکہ پرویز الہٰی نے 186ووٹ حاصل کیے لیکن ڈپٹی اسپیکر نے مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ مسترد کردیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے چوہدری شجاعت حسین کے مبینہ خط کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ (ق) کے ووٹ مسترد کیے۔

چوہدری پرویز الہٰی کے وکیل کے دلائل کے بعد سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو 2 بجے طلب کر لیا۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ڈپٹی اسپیکر الیکشن کا مکمل ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کریں اور بتائیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے کس پیرا کی بنیاد پر رولنگ دی۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بھی نوٹس جاری کردیے اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی معاونت کے لیے سپریم کورٹ میں طلب کرلیا۔

پرویز الہٰی کے وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز نے حلف لے لیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے فرق نہیں پڑنا، ہم نے آئین اور قانون کی بات کرنی ہے، آپ لوگ بھی ذرا صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔

عدالت نے حمزہ شہباز اور چیف سیکریٹری پنجاب کو بھی نوٹسز جاری کر دیے۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں 2 بجے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے عرفان قادر نے اپنا وکالت نامہ جمع کرا دیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کو طلب کیا تھا وہ کیوں نہیں آئے، جس پر عرفان قادر نے کہا کہ میں موجود ہوں اور عدالت کی معاونت کروں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کمرہ عدالت میں اتنا رش ہے، ہدایت کی گئی تھی کہ متعلقہ لوگ ہی آئیں، جس کے بعد 3 رکنی فل بینچ نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کورٹ روم میں متعلقہ لوگ ہی ہوں گے پھر سماعت شروع کریں گے۔

تھوڑی دیر بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو کمرہ عدالت میں صرف متعلقہ وکلا کو ہی داخل ہونے کی اجازت دی گئی جبکہ باقی وکلا اور سائلین کورٹ روم نمبر 3 میں لگی اسکرین پر عدالتی کاروائی سنتے رہے۔

وقفے کے بعد سماعت شروع ہونے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شہزاد شوکت نے دلائل دیے۔

یکطرفہ فیصلوں پر سرجھکانے کی توقع نہ رکھی جائے، مریم نواز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدر مریم نواز نے سپریم کورٹ کی سماعت کے بعد سخت مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ ‘اگر انصاف کے ایوان بھی دھونس، دھمکی،بدتمیزی اور گالیوں کےدباؤ میں آ کر بار بار ایک ہی بینچ کے ذریعے مخصوص فیصلے کرتے ہیں،اپنے ہی دیے فیصلوں کی نفی کرتے ہیں،سارا وزن ترازو کے ایک ہی پلڑے میں ڈال دیتے ہیں تو ایسے یک طرفہ فیصلوں کے سامنے سر جھکانے کی توقع ہم سے نا رکھی جائے،بہت ہو گیا!’

انہوں نے کہا کہ ‘موجودہ سیاسی انتشار اور عدم استحکام کا سلسلہ اس عدالتی فیصلے سے شروع ہوتا ہے جس کے ذریعے آئین کی من مانی تشریح کرتے ہوئے اپنی مرضی سے ووٹ دینے والوں کے ووٹ نہ گننے کا حکم جاری ہوا’۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ ‘آج اس کی ایک نئی تشریح کی جا رہی ہے تاکہ اب بھی اسی لاڈلے کو فائدہ پہچنے جسے کل پہنچا تھا!نا منظور!’۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ ‘جس طرح اقدامات کیے جارہے ہیں، چند لوگ پوچھ رہے ہیں کیا عدلیہ سے کہنا چاہیے کہ ان کے فیصلے سے ہونے والی معاشی انتظامات اور معاشی بدحالی کی مکمل ذمہ داری لیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘نقصان پاناما معاملے سے شروع ہوا تھا’۔

سماعت کے بعد کیس واضح ہوگیا ہے، فرخ حبیب

—فوٹو: ڈان نیوز

عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے کہا کہ حکومت کی جانب سے سماعت کے دوران کوئی جواب یا معقول دلیل نہیں دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کی سماعت کے بعد یہ کیس واضح ہوگیا ہے اور جب عدالت کا فیصلہ آئے گا تو پرویز الہٰی ہی آئینی اور قانونی وزیراعلیٰ ہوں گے۔فرخ حبیب نے کہا کہ حمزہ شہباز کو صرف ٹرسٹی وزیراعلیٰ کے طور پر بحال کیا گیا ہے اور صوبائی حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور آج کا حلف معطل کردیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عمران خان لائحہ عمل دیں گے، اسد عمر

اس سے قبل پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے کہا تھا کہ معاملے پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آج متوقع ہے اور اس کے بعد عمران خان حقیقی آزادی پر یقین رکھنے والے تمام پاکستانیوں کے لیے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ڈوبتے ہوئے نظام کی آخری کڑی تھی، جس کو چند خاندانوں نے پاکستان پر مسلط کیا تھا۔

پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے آصف زرداری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری شجاعت کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ خط اراکین اسمبلی کو نہیں دیا گیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے اس خط کو اپنے جیب میں رکھا جس سے ان کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔

معاملے کا پس منظر

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پنجاب اسمبلی میں 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے انتخاب ہوا، جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز دوبارہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے تھے۔

وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو 179ووٹ جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الہٰی کو 186 ووٹ ملے تھے۔

تاہم صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ(ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کا خط دکھاتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پرویز الہٰی کو ملنے والے ووٹوں میں سے مسلم لیگ (ق) کے تمام 10 ووٹ مسترد کردیے تھے جس کے بعد حمزہ شہباز 3 ووٹوں کی برتری سے وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے تھے۔

پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ مسترد کیے جانے کے بعد یہ بحث چھڑ گئی کہ چوہدری شجاعت حسین کے خط کی روشنی میں ان کی پارٹی کے اراکین اسمبلی کو آخری وقت پر حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی ہدایات کیا قانونی طور پر درست تھی؟ خاص طور پر جب سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کر دی ہے۔

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے بتایا :

  • عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63-اے آرٹیکل 17 سیاسی جماعت کے بنیادی حق کا نفاذ کرتا ہے، اس لیے اس کی تشریح اور اطلاق وسیع بنیاد پر بنیادی حقوق کے ساتھ کرنا چاہیے۔
  • سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہنا تھا کہ ایوان میں ایک پارلیمانی پارٹی کا کسی بھی رکن کا ووٹ آرٹیکل 63-اے کی ذیلی شق ایک کے پیرا بی کے تحت اول الذکر کی جاری کردہ کسی ہدایت کے خلاف دیا جائے تو شمار نہیں کیا جاسکتا اور اس بات سے قطع نظر کہ پارٹی سربراہ انحراف کی وجہ بننے والے ووٹ کے بعد کارروائی کرے یا نہ کرے۔
  • آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

اگر پارلیمنٹیرین وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں