مقبوضہ جموں و کشمیر کے اتحاد اور اس کی مکمل آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) نے ایک خط میں اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 5 اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے اٹھائے گئے یکطرفہ غیرقانونی اقدامات کی روشنی میں متنازع علاقے سے متعلق اپنی پالیسی پر ’سنجیدہ نظرثانی‘ کرے۔رپورٹ کے مطابق جی کے ایل ایف نے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ کیے گئے 1972 کے شملہ معاہدے کو منسوخ کر کے خود کو اور کشمیریوں کو دوطرفہ معاہدے سے آزاد کر کے کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھائے۔پارٹی کے قائم مقام چیئرمین راجا محمد حق نواز خان کے دستخط شدہ 2200 سے زائد الفاظ پر مشتمل خط میں لکھا گیا ہے کہ ’پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کو مسئلے میں شامل کرنے میں ناکامی کے باعث بھارت کو کشمیریوں کے خلاف جارحیت کا موقع ملا ہے‘۔
خط میں زور دیا گیا ہے کہ بھارت کے 2019 کے غیر قانونی اقدام پر ردِعمل کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے سیاسی اور سفارتی محاذ پر کیے گئے اقدامات میں کمی کے سبب کشمیریوں میں پاکستان کی کشمیر پالیسی، آزاد جموں و کشمیر سمیت گلگت بلتستان کی حیثیت سے متعلق پالیسی پر مسلسل خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے تقریباً 75 سالوں سے کشمیری اپنے بین الاقوامی طور پر متنازع خطے کی حیثیت کے بارے میں آزادانہ طور پر فیصلہ کرنے کے حق کے لیے پاکستان کی بھرپور حمایت کی توقع رکھتے ہیں۔
خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ اگست 2019 سے کشمیریوں کو اس بات کا دردناک احساس ہو رہا ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور اور سلامتی کونسل کے متعلقہ قراردادوں پر پاکستان کی کشمیر کے خطے کی سالمیت کی جدوجہد سے متعلق حمایت کی پالیسی تبدیلی ہوگئی ہے۔
جے کے ایل ایف نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ بھارتی اقدام اس مسئلے کے تاریخی تناظر سے منہ پھیرنے کے مترادف تھا جس پر پاکستان کے مضبوط سیاسی اور سفارتی ردِعمل کی ضرورت ہے، مگر اسلام آباد کی طرف سے دیا گیا جواب صرف ’مناسب‘ سمجھا جاتا ہے، یہ ردِعمل مضبوط نہیں ہے۔
خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر میں اپنی جارحیت پر وضاحت دینے کے بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں 38، 91 اور 122 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر پر قبضہ کر کے اپنا حوصلہ بڑھایا ہے۔