امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان ایران اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کے لیے اسرائیل پہنچے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جوہری امور پر ایران کے پاس سفارت کاری کے جو مواقع ہیں وہ چند ہفتوں میں ہی ختم ہو رہے ہیں۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان 22 دسمبر بدھ کے روز اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کے لیے اسرائیل کے دورے پر یروشلم پہنچے۔ وہاں انہوں نے ایران کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ نئے جوہری معاہدے کو حاصل کرنے کے لیے تہران کے پاس وقت بہت کم ہے اور چند ہفتوں کے اندر ہی اس کے سفارتی موقع ختم ہو سکتے ہیں۔
سلیوان نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، “ہم عمومی طور پر کیلنڈر کی کسی خاص تاریخ کی بات نہیں کر رہے ہیں، تاہم میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ بند دروازوں کے پیچھے ہم ایک ٹائم فریم کے بارے میں بات کر رہے ہیں، اور وہ طویل نہیں ہے۔”
تاہم انہوں نے اس وقت کے بارے میں “ہفتوں” کے لفظ کے استعمال سے یہ اشارہ دینے کی کوشش کی کہ وہ مقررہ وقت کتنا ہو سکتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینٹ کے ساتھ ملاقات سے قبل، سلیوان نے کہا کہ اس مسئلے پر امریکا اور اسرائیل کو ایک “مشترکہ حکمت عملی” اپنانے کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بینٹ کے ساتھ ان کی ملاقات ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب، “ہمارے دونوں ملک سیکورٹی کی نازک صورت کے اہم موڑ پر ہیں۔”
قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایملی ہورن کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام سے بات چیت کے دوران سلیوان نے ” امریکا کے اس پختہ عزم کا اعادہ کیا کہ ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیے جائیں گے۔”
نیفتالی بینٹ نے ایران کے بارے میں کیا کہا؟
اسرائیلی وزیر اعظم نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، “ویانا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے مشرق وسطیٰ کے استحکام اور آئندہ برسوں میں اسرائیل کی سلامتی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔”
اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کا مخالف ہے اور اس حوالے سے معاہدے کی بحالی کے لیے ہونے والے مذاکرات کی کوششوں پر بھی تنقید کرتا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ تہران “جوہری بلیک میلنگ” کے ذریعے دنیا کو یرغمال بنا نے کی کوشش کر رہا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینٹ سے ملاقات کے بعد امریکی قومی سلامتی کے مشیر سلیوان فلسطینی رہنما محمود عباس سے ملاقات کے لیے مغربی کنارے کے لیے روانہ ہو گئے۔
ایران جوہری معاہدہ کس حال میں ہے؟
ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے حوالے سے گزشتہ ماہ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں دوبارہ بات چیت شروع ہوئی تھی۔ تاہم ساتویں دور کی بات چیت کے بعد ایرانی مذاکرات کار اپنے ملک واپس ہو گئے تھے اور مذاکرات کو وقتی طور پر ملتوی کر دیا گيا۔
یورپی یونین کے نمائندے ایریک مورا نے ایران جوہری مذاکرات کے ساتویں دور کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذاکرات کا ملتوی کیا جانا ‘مایوس کن’ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایران نے یورینیم افزودہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور ” کسی معاہدے پر اتفاق رائے کے لیے ہمارے پاس اب مہینے نہیں بلکہ صرف چند ہفتے ہی باقی بچے ہیں۔”
ایران اور امریکا کے درمیان ہونے والی اس بالواسطہ بات چیت کا مقصد سن 2015 کے اس جوہری معاہدے کو بحال کرنا ہے جسے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں یک طرفہ طور پر ختم کردیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے میں امریکا، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں میں نرمی کرنے کی بات کہی گئی ہے۔
صدر ٹرمپ نے پانچ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والے سن 2015کے جوہری معاہدے کو ختم کرنے کے ساتھ ہی ایران کے خلاف مزید سخت ترین پابندیاں عائد کردی تھیں۔ رد عمل کے طور پر ایران نے بھی معاہدے کے ضابطوں کی خلاف ورزیاں شروع کر دیں۔