جموں و کشمیر حد بندی کمیشن نے نئی حد بندی میں سات حلقوں کا اضافہ کیا ہے جس میں جموں کو چھ اور کشمیر کو صرف ایک سیٹ دی گئی ہے،اپوزیشن جماعتیں اس فیصلے کی مخالفت کررہی ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کی سابق جج جسٹس رنجنا پرکاش ڈیسائی کی قیادت والی حد بندی کمیشن نے جموں و کشمیر کی نئی حد بندی کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کردی۔ اس کے مطابق مرکز کے زیر انتظام اس علاقے کی اسمبلی کی 83 سیٹوں میں سات کا اضافہ کرکے اب 90 کردیا گیا ہے۔جن 7 سیٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے ان میں سے چھ جموں میں کی گئی ہیں جس کے ساتھ ہی جموں میں سیٹوں کی تعداد 37 سے بڑھ کر 43 ہوجائے گی۔ کشمیر میں صرف ایک سیٹ کا اضافہ کیا گیا ہے اور وہاں کی سیٹیں 46 سے بڑھ کر 47 ہوجائیں گی۔
جموں کی آبادی 44 فیصد ہے لیکن اسے سیٹوں میں 48 فیصد حصہ داری دی گئی ہے جب کہ 56 فیصد آبادی والے کشمیر کو سیٹوں میں صرف 52 فیصد حصہ داری ملی ہے۔ اس سے قبل اس کی حصہ داری 55.4 فیصد تھی۔
حد بندی کمیشن نے کشمیری تارکین وطن کمیونٹی کے لیے اسمبلی میں ایک خاتون سمیت کم از کم دو نشستیں مختص کرنے کی سفارش کی ہے۔ کمیشن نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے آنے والے رفیوجیوں کے لیے بھی اسمبلی میں نمائندگی دینے پر مرکز سے غور کرنے کی سفارش کی ہے۔
کمیشن نے پہلی مرتبہ درج فہرست قبائل کے لیے نو اور درج فہرست ذاتوں کے لیے سات سیٹیں ریزرو کرنے کی سفارش کی ہے۔
نئی حد بندی کے بعد جموں و کشمیر کے پانچ پارلیمانی حلقوں میں اب ہر ایک میں 18-18 اسمبلی حلقے ہوں گے۔
چونکہ رپورٹ کو نوٹیفائی کردیا گیا ہے اس لیے اب تمام نگاہیں الیکشن کمیشن اور مرکزی حکومت پر لگی ہیں کہ وہ جموں و کشمیر میں انتخابات کا اعلان کب کرتی ہے۔ حالانکہ وادی کی مین اسٹریم سیاسی پارٹیوں نے رپورٹ پر نکتہ چینی کی ہے۔
مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی نکتہ چینی
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور پیپلز کانفرنس دونوں نے اس رپورٹ کو کشمیری عوام کو ”بے اختیار کردینے” کی کوشش قرار دیا۔ کانگریس نے کہا کہ یہ جانبداری اور سیاسی مقاصد پر مبنی ہے جبکہ نیشنل کانفرنس نے کہا کہ وہ اس کے ”مضمرات کا جائزہ” لے رہی ہے۔
پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا کہ”حد بندی کمیشن نے آبادی کی بنیاد کو نظر انداز کیا اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کردیا۔ ہمیں اس پر بھروسہ نہیں ہے… اس کا مقصد یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کو کسی طرح اختیارات سے محروم کردیا جائے۔ بھارت سرکار نے ایک بار پھر آئین کو نظر انداز کرتے ہوئے انتخابی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا۔”
پیپلز کانفرنس کے سجاد لون کا کہنا تھا کہ ایک بار پھر ماضی کو دہرایا گیا اور کشمیر کے ساتھ جانبدارانہ سلوک کیا گیاہے۔ کانگریسی رہنما اور سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوزنے کہا کہ کشمیر کی عوام پہلے ہی اندازہ لگارہی تھی کہ مرکز کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ کمیشن نے کشمیر میں صرف ایک سیٹ کا اضافہ کیا ہے جو کہ بالکل غلط اور ناانصافی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے تاہم رپورٹ کو “تاریخی” قرار دیا۔ بی جے پی نے کہا کہ نئی حد بندی سے مساوی سیاسی نمائندگی اور تمام شعبوں میں ترقی کے درواز ے کھلیں گے۔
سیاسی مبصرین کیا کہتے ہیں؟
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نئی حد بندی سے سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔
مبصرین کے مطابق اگر بی جے پی جموں خطے میں اپنی کارکردگی کو دہرانے میں کامیاب رہتی ہے جس کا مظاہرہ سن 2014 کے اسمبلی انتخابات میں کیا تھا تووہ واحد سب سے بڑی پارٹی بن جائے گی کیونکہ وادی میں ووٹر مختلف جماعتوں کے درمیان منقسم ہیں۔
اس کے علاوہ جموں خطے میں جو نئی اسمبلی سیٹیں بنائی گئی ہیں وہ ہندو اکثریتی علاقوں پر مشمل ہیں۔ وادی کشمیر میں جو واحد نئی سیٹ بنائی گئی ہے وہ سرحدی کپواڑہ ضلع سے کاٹ کر بنائی گئی ہے جہاں سجاد غنی کی قیادت والی پیپلز کانفرنس کا غلبہ ہے۔ اور وہ ماضی میں بی جے پی کے حلیف رہ چکے ہیں۔