اسلام آباد ہائی کورٹ کی انتظامیہ نے رعایتی نرخ پر پلاٹس کا اہل بنانے کے لیے ملازمین کی ’جعلی‘ تصدیق پر ایک سیشن جج، ایک ایڈیشنل رجسٹرار، ایک ڈپٹی رجسٹرار اور ایک اور عہدیدار سے وضاحت طلب کرلی۔رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹ انتظامیہ کے ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا جواد عباس حسن جو اس وقت انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد کے خصوصی جج تعینات ہیں، ایڈیشنل رجسٹرار امتیاز احمد، ڈپٹی رجسٹرار علی احمد اور اسسٹنٹ محمد مشتاق سے وضاحت مانگی گئی ہے۔فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ اتھارٹی (ای جی ای ایچ اے) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو لکھے ایک خط میں انکشاف کیا کہ رجسٹرار آفس نے سال 2017 میں ان ملازمین کے جھوٹے دعووں کی تصدیق کی جن کی تعیناتی کو سپریم کورٹ 2016 میں ہی کالعدم قرار دے چکی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس کی تصدیق کی وجہ سے نااہل افسران کو رعایتی نرخوں پر قیمتی پلاٹس الاٹ کیے گئے۔
ہاؤسنگ اتھارٹی نے ایک اور خط میں لاہور ہائی کورٹ کے پلاٹ کے حصول کے لیے ایڈیشنل رجسٹرار عبدالحفیظ کی درخواست کا حوالہ دیا جن کی درخواست اس لیے مسترد کردی گئی کہ وہ وفاقی دارالحکومت میں کام نہیں کر رہے تھے۔
ایف جی ای ایچ اے کے مطابق عبدالحفیظ نے لاہور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرارز شہزادہ اسلم اور عمر دراز شاکر اور سندھ ہائی کورٹ کے شکیل احمد قاضی کو رعایتی نرخوں پر پلاٹ کی الاٹمنٹ کی نشاندہی کی تھی۔
تاہم ہاؤسنگ اتھارٹی کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے انکشاف سامنے آیا کہ ان ملازمین کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی تصدیق کے بعد ایف جی ای ایچ اے کی پالیسی کے مطابق پلاٹس الاٹ کیے گئے تھے۔
اس کے نتیجے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی انتطامیہ نے سیشن جج اور دیگر عہدیداروں سے جعلی تصدیق پر وضاحت طلب کی۔
ایف جی ای ایچ اے کے ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ اتھارٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے تینوں سینئر عہدیداروں کے پلاٹس منسوخ کرنے کے لیے اقدام اٹھایا تھا۔
تاہم ذرائع نے کہا کہ الاٹیز نے اپنے آفر لیٹر کچھ برسوں قبل ہی فروخت کردیے تھے۔
ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کار اس قسم کے آفر لیٹرز کو خریدتے ہیں کیوں کہ ترقیاتی کاموں کے بعد ان پلاٹس کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اسلام آباد کے سیکٹر 14 اور 15 کی ڈیولپمنٹ کے لیے ایف جی ای ایچ اے کے ریئل اسٹیٹ پروجیکٹ کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔