افغانستان کے لیے برلن حکومت کے خصوصی ایلچی جمعرات اٹھارہ نومبر کو کابل میں تھے۔ انہوں نے طالبان حکومت کے ساتھ اُن معاملات پر مشاورت کی جن میں جرمنی افغانستان میں بحران کی صورت حال کو بہتر کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔جرمن دارالحکومت برلن سے دفترِ وزارتِ خارجہ نے اس کی تصدیق کی افغانستان کے لیے خصوصی مندوب یاسپر وِیک (Jasper Wieck) نے جمعرات اٹھارہ نومبر کو کابل میں طالبان حکومت کے اعلیٰ اہلکاروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ خصوصی مندوب کے ساتھ ان ملاقاتوں میں افغانستان کے لیے متعین جرمن سفیر مارکوس پوٹسیل بھی شریک تھے۔
جرمن تعاون کا امکان
جرمن دفترِ خارجہ نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ ان ملاقاتوں میں فریقین اُن معاملات کو زیرِ بحث لائے جن میں تعاون ممکن ہے۔ اس بیان کے مطابق فریقین نے بات چیت کے دوران افغان باشندوں کی مشکلات پر بھی توجہ مرکوز کی اور جرمن حکومت کی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اقتصادی بدحالی کے شکار ملک کی عوام کو ممکنہ امداد کی فراہمی کے پہلووں پر بھی گفتگو کی گئی۔
جرمن حکومت نے رواں برس وسطِ اگست میں طالبان کی کابل کی جانب چڑھائی کو دیکھتے ہوئے اپنے سفارتی عملے کو واپس ملک طلب کر لیا تھا۔ ابھی اس کا فیصلہ نہیں کیا گیا کہ نامز سفیر مارکوس پوٹسیل کب اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
طالبان کی یقین دہانی
برلن کے خصوصی ایلچی یاسپر وِیک کے ساتھ ان ملاقاتوں میں افغانستان کے حکمران طالبان نے اس کی یقین دہانی کرائی کہ ان کی جانب سے انسانی ہمدردی کے تحت دی جانے والی امداد کی تقسیم میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جائے گی۔ ان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ امداد کی تقسیم کا سارا سلسلہ شفاف اور عدم مداخلت کے ساتھ ہو گا۔
طالبان نے یہ بھی بتایا کہ امداد تقسیم کرنے والے ورکرز میں مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی شامل کیا جائے گا تاکہ برادریوں اور افراد تک امداد مساویانہ انداز میں پہنچ سکے۔
اس ملاقات میں طالبان نے اس کی بھی وضاحت کی وہ اس کو اہم خیال کرتے ہیں کہ تعلیم کے مواقع قومی سطح پر لڑکوں اور لڑکیوں کو فراہم ہوں۔
طالبان حکام نے جرمن اعلیٰ سفیر کو یہ بھی بتایا کہ وہ اب بھی عام معافی کے بیان پر قائم ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اُن افغان شہریوں کو محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا جو ملک چھوڑ کر باہر جانے کے خواہشمند ہیں۔
طالبان حکومت کی مشکلات
رواں برس اگست میں غیر ملکی افواج کے انخلا اور مغرب کی حمایت یافتہ حکومت کے انہدام کے بعد طالبان سارے ملک کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے حکومتی عمل داری قائم کر چکے ہیں۔ ایک عبوری حکومت کو تشکیل بھی دے دیا گیا ہے۔ اس حکومت کو بین الاقوامی برادری نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔عالمی برادری کو اس حکومت کے حوالے سے کئی قسم کے شبہات و خدشات لاحق ہیں۔ ان میں ایک خواتین اور لڑکیوں کو دفاتر اور اسکولوں سے ابھی تک دور رکھنا ہے۔