ججوں کی مراعات، اثاثے پھر زیر بحث

ججوں کی تنخواہ اور مراعات کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کے جواب میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ اس کیس کی بنا ججوں اور جرنیلوں کی مراعات اور اثاثوں کے حوالے سے بحث چھڑ گئی ہے۔

واضح رہے کہ سن دوہزار انیس میں ایک شہری مختار احمد علی نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کو درخواست دی تھی کہ سپریم کورٹ میں منظور شدہ آسامیوں کی تعداد بتائی جائے اور ملازمین کی تنخواہوں کی تفصیلات دی جائیں۔ درخواست گزار نے گریڈ ایک سے گریڈ بائیس تک کے ملازمین کی ساری تفصیلات مانگی تھیں اور جو آسامیاں خالی تھیں ان کی بھی تفصیلات طلب کی تھیں۔ درخواست گزار نے یہ بھی پوچھا تھا کہ ملازمین میں کتنی خواتین، معذور اور ٹرانسجینڈر ہیں۔ کمیشن نے درخواست گزار کی درخواست کو منظور کیا تھا۔ تاہم اس منظوری پر رجسٹرارسپریم کورٹ نے کمیشن کو بتایا تھا کہ اس کا اختیار ایسے احکامات پاس کرنے کا نہیں ہے۔ اب سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے آرڈر کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔

قانونی نکات

اس صورتحال کی وجہ سے پاکستان کے کئی حلقوں میں ججوں اور جرنیلوں کی تنخواہ و مراعات اور اثاثوں کے حوالے سے ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر شہری کا حق ہے کہ وہ یہ جانے کہ ججوں کی تنخواہ ومراعات کیا ہیں یا ان کو دیے گئے پلاٹ کی تعداد کتنی ہے۔ معروف قانون داں اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی نے اس حوالے سے میڈیا کو بتایا، “قانونی نکتہ یہ ہے کہ ہر شہری کا یہ حق ہے کہ وہ جانے کے ججوں کو کتنی تنخواہ مراعات یا دوسری سہولیات ملتی ہیں اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ شہریوں کو اس حق سے محروم کرے۔‘‘

کچھ خفیہ نہیں ہے

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کی سپریم کورٹ کے ججوں کی تنخواہیں اور مراعات پہلے ہی کوئی خفیہ نہیں ہیں۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا، “تنخواہیں آڈیٹر جنرل پاکستان سے آتی ہیں اور ان کے پاس اس کا پورا ریکارڈ ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جج سمیت کوئی بھی شہری جب اپنا انکم ٹیکس کا فارم بھرتا ہے تو اس میں اپنے سارے اثاثے ظاہر کرتا ہے۔ تو میرے خیال میں یہ نہ کوئی راز کی بات ہے اور شہریوں کو اس کا حق بھی ہے لیکن اس کے لیے  انہیں متعلقہ اداروں سے رابطہ کرنا چاہیے۔‘‘

فوج کا اپنا نظام ہے

ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک فوج کا تعلق ہے ان کا اپنا اندرونی ایک نظام ہے اور وہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر ایسی اطلاعات کو دینے سے منع کر سکتے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں کہ منظر عام پر نہیں آنا چاہیے۔

کوئی استثنیٰ نہیں ہے

تاہم سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ 2017 میں بنائے جانے والے اطلاعات تک رسائی کے اس قانون میں ایسی کوئی شق نہیں جو کسی بھی شہری کو ججوں اور جرنیلوں کی دولت یا اثاثوں کے بارے میں جاننے سے منع کرتی ہو۔ یہ قانون مسلم لیگ نون کے دور میں بنا تھا۔ مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے اس حوالے سے میڈیا کو بتایا، “میرے خیال میں ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ وہ آرمی کے افسران، جرنیلوں، جو یہ افسر شاہی سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں، اگر وہ ان کی تنخواہ و مراعات و سہولیات یا اثاثے اور ملنے والے پلاٹس کے حوالے سے کوئی معلومات چاہتا ہے تو قانونی طور پر اس کو یہ معلومات مل سکتی ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب ہم نے یہ قانون پاس کیا تھا تو اس میں ایسی کوئی مستثنیات نہیں تھی کہ جرنیلوں ججوں یا کسی اور سرکاری ملازم کے حوالے سے اطلاع عام آدمی کو فراہم نہیں کی جا سکتی۔ “لیکن حساس نوعیت کی اطلاعات فراہم نہیں کی جا سکتیں، یعنی بموں، ہتھیاروں یا دیگر حساس آلات کی اطلاعات۔‘‘

جرنیلوں اور ججوں کے حوالے سے درخواست

موجودہ صورتحال میں اب نہ صرف اس پٹیشن پر بحث ہورہی ہے جس میں ججوں کی تنخواہوں اور مراعات کے حوالے سے سوال کیا گیا ہے بلکہ سول سوسائٹی کی طرف سے جمع کرائی گئی اس درخواست کے حوالے سے بھی بحث ہورہی ہے، جو جون دو ہزار بیس میں جمع کرائی گئی تھی۔  اس درخواست کے ایک پٹیشنر ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے میڈیا کو بتایا، “ہم نے سب سے پہلے جی ایچ کیو اور وزارت دفاع کو لکھا تھا کہ بریگیڈیئر اور ان سے اوپر کے عہدے والے جتنے افسران ہیں ان کی تنخواہ، سہولیات، مراعات اور ملنے والے پلاٹس اور اثاثوں کے حوالے سے تفصیلات فراہم کی جائے۔ جب ہمیں تفصیلات فراہم نہیں کی گئی، تو ہم نے جون 2020 میں پاکستان انفارمیشن کمیشن سے رابطہ کیا۔ کمیشن نے کچھ مستثنیات کے ساتھ ججوں کی تنخواہوں، مراعات اور سہولیات کے حوالے سے فیصلہ دیا لیکن فوجی افسران کے حوالے سے درخواست کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔‘‘

جواب کا انتظار

ایچ نئیر کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع نے اس حوالے سے کمیشن کو کہا تھا کہ کمیشن کو اختیارات نہیں کہ وہ اس طرح کا حکم جاری کر سکے۔ “ہمارا خیال  یہ ہے کہ کمیشن پر دباؤ ہے اور کمیشن اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں کرپا رہا۔ وہ بظاہر بے بس لگتا ہے۔ ہم نے وزارت دفاع  کی حجت کو مسترد کر دیا تھا لیکن ابھی تک ہمیں کمیشن نے نہیں بتایا کہ فوجی افسران کو ملنے والی تنخواہ مراعات سہولیات اور اثاثوں کے حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ ہم ابھی تک جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ سول سوسائٹی نے جب یہ درخواست دی تھی تو قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی بیوی نے رضاکارانہ طور پر اپنے حوالے سے تفصیلات جمع کرادی تھیں، جسے کچھ حلقوں نے سراہا بھی تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں