وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جب تک ہم سچے، امانت دار اور انصاف کرنے والے نہیں بنیں گے ہماری قوم عظیم قوم نہیں بن سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ جب مسلمانوں نے دنیا میں غلبہ حاصل کیا اس وقت لوگ ان کے کردار سے متاثر تھے، انڈونیشیا، ملیشیا میں کوئی مسلمان فوج نہیں گئی تھی بلکہ مسلمان تاجروں کے کردار سے وہاں لوگ متاثر ہو کر مسلمان ہوئے تھے۔
ڈیرہ اسمٰعیل خان میں کسان کارڈ کے اجرا کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس لیے میں پاکستانیوں کو یہ سمجھاتا ہوں کہ اللہ نے پاکستان کو کسی چیز کی کمی نہیں دی، یہاں اس نے ہر قسم کی نعمتیں دی ہیں لیکن ہمیں ایک عظییم قوم بننے کے لیے سچائی اور کردار چاہیے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں نے ساری دنیا دیکھی ہوئی ہے جن لوگوں کو ہم کافر کہتے ہیں آپ حیران ہوں گے وہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا لیکن لوگ پیسے ڈال کر اخبار اٹھاتے ہیں جو ویسے ہی رکھے ہوتے ہیں، وہاں سوچتے بھی نہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہاں لوگ آتے ہیں سیدھا ووٹ ڈال کر چلے جاتے ہیں، کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا، ہمارے انتخابات سے پہلے ہم گھنٹوں اس بات پر میٹنگ نہیں کرتے کہ ووٹرز کو کیسے نکالنا ہے بلکہ اس پر بات ہوتی ہے کہ دھاندلی کس طرح روکنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں ایسے لوگ آئے جو آج اربوں روپے کے اثاثے لے کر باہر بیٹھے ہوئے ہیں، ایک رسید نہیں بتاسکتے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا اور وہاں سے بیٹھ کر یہاں تقریریں کررہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں ایک عظیم قوم بننا تھا، آج سسٹم اور ان مافیاز کے خلاف جو جنگ ہم لڑ رہے ہیں اس میں کامیاب ہوں گے اور قوم نے اپنے آپکو تبدیل کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب پاکستان قائم ہوا تو ہماری آبادی 4 کروڑ سے بھی کم تھی جو آج 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور جس شرح سے بڑھ رہی ہے، اتنی زرخیز زمین کے باوجود ہم نے گزشتہ برس 40 لاکھ ٹن گندم درآمد کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ پاکستان میں گندم کی تاریخ کی سب سے بڑی پیداوار ہوئی اس کے باوجود ہمیں درآمد کرنی پڑے گی کیوں کہ ہماری اتنی تیزی ئے بڑھ رہی ہے، ہم دالیں، گھی سمیت بیشتر اشیائے خورونوش درآمد کرتے ہیں اسلیے جب بین الاقوامی سطح پر قیمتیں بڑھیں تو یہاں بھی مہنگائی ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ 2 چیزوں سے آبادی کی رفتار تھمتی ہے ایک بنیادی تعلیم کی فراہمی اور بنیادی صحت کے نظام کو ٹھیک کرنا جس پر ہم کام کررہے ہیں لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ منصوبہ بندی بھی کرنی ہےکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث کس طرح سب کا پیٹ پالنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اسی طرح آبادی بڑھتی رہی اور پیداوار کی شرح یہی رہی تو آئندہ برسوں میں پاکستان میں بہت بھوک ہوگی، اگر ہم خود اناج اگائیں گے تو عالمی سطح پر قیمتیں بڑھنے سے خاص فرق نہیں پڑے گا لیکن آج جبکہ ہم درآمد کررہے ہیں تو اس کا اثر ہم پر پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے آبی ذخائر اور پانی کے بہتر استعمال کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی، تاکہ ہم اپنے زمین سے زیادہ پیداوار کرسکیں ساتھ ہی زرعی تحقیق اہم چیز ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی کی زرعی پیداوار ہم سے زیادہ ہے کیوں کہ وہاں تحقیق زیادہ ہوئی، اس لیے اب ہمیں زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے پانی کے بہتر استعمال، زمین کا بہتر استعمال اور بیج کو تقری دینے جیسے معاملات پر کام کررہے ہیں۔
خطاب کے آغاز میں وزیراعظم نے کہا کہ میں تاریخ کا طالبعلم ہوں میں نے دنیا کی تاریخ پڑھی ہے اور سب سے زیادہ متاثر نبی ﷺکی سیرت سے ہوا۔
انہوں نے کہا کہ میں ریاست مدینہ کی بات اس لیے کرتا ہوں کہ یہ دنیا کی تاریخ میں ایک بہت بڑا انقلاب تھا، اس سے پہلے اتنا بڑا انقلاب کبھی نہیں آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نبی ﷺ واحد پیغمبر ہیں جن کی ساری زندگی تاریخ کا حصہ ہے، کس طرح وہ لوگ جن کی کوئی حیثیت نہیں تھی یعنی عرب چند برسوں میں دنیا کی امامت کرنے لگے، یہ تاریخ کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے حالات اس لیے برے ہیں کیوں کہ دین کا ہماری زندگی پر کوئی اثر نہیں ہوتا، ہم صرف جمعے کا خطبہ سن کر آجاتے ہیں، اللہ نے ہمیں قرآن میں حکم دیا ہے کہ ان ﷺ کی زندگی سے سیکھو، اگر قرآن کی تعلیمات پر چلتے ہیں تو اس میں ہماری بہتری ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب کوئی نبی کی سنت اور شریعت پر عمل کرتا ہے تو چھوٹا آدمی بڑا آدمی بن جاتا ہے، نماز میں ہم دعا مانگتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس راستے پر چلا جن کو تو نے نعمتیں بخشیں، تو سب سے زیادہ نعمتیں تو رب نے اپنے حبیب ﷺ کو بخشی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک خوددار قوم بننا چاہیے، لاالٰہ الااللہ ایک انسان کو غیرت دیتا ہے، جب آپ اللہ کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکتے تو ایک چھوٹا سا انسان غیر مند ہوجاتا ہے، جب کوئی پیسے والے کے سامنےجھکتاہے تو کوئی اس کی عزت نہیں کرتا لیکن اگر ایک مزدور بھی غیرت مند ہوتا ہے تو لوگ اس کی عزت کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ مدینے کے انقلاب کی بنیاد 2 چیزیں تھیں ایک انسانوں کو آزاد کیا، عدل و انصاف کا نظام لے کر آئے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے قوم کے مطابق کفر کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ناانصافی کا نظام پاکستان میں ہے، بڑے بڑے مافیا بیٹھے ہوئے ہیں، قانون سے بالاتر ہیں، قانون کی بالادستی قائم نہیں ہونے دیتے کیوں کہ وہ کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، اس لیے جب بڑے بڑے مافیا کہیں گے کہ ہمیں این آر او دے دو اور باقی غریبوں کو پکڑو تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
وزیراعظم نے کہا کہ نبی ﷺ نے مدینہ میں سب سے پہلے انصاف قائم کیا کہ میری بیٹی بھی اگر جرم کرے گی تو اسے سزا ملے گی اور تم سے پہلے بہت سے قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کیوں کہ ان میں انصاف نہیں تھا، جہاں طاقتور اور کمزور کے لیے علیحدہ علیحدہ قانون تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست مدینہ میں دوسری چیز انسان کا کردار بلند کرنا تھا، صادق اور امین جیسے کردار سے وہ لوگ اٹھے، کبھی بھی جھوٹے اور بزدل لوگ بڑی قوم نہیں بنا سکتے، سچے، دلیر اور غیرت مند لوگ ہی بڑی قوم بنا سکتے ہیں