پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کیرہنما شیریں مزاری نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ حکومت میں بطور انسانی حقوق کی وزیر انہیں لاپتہ افراد کے حوالے سے بل پر انٹرسروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ہیڈکوارٹرز میں طلب کیا گیا تھا۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ‘میں نے جبری طور پر لاپتہ افراد کے معاملے پر ہمیشہ ایک پوزیشن لی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے اس معاملے پر ایک بل بھی تیار کیا تھا، سابق وزیراعظم عمران خان چاہتے تھے کہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے اور وزارتوں سے دیکھنے کو کہا تھا کہ یہ بل رولز آف بزنس میں آتا ہے یا نہیں۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘اس شام کو مجھے فون آیا کہ آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹرز میں پیش ہوں، میں گئی اور کہا کہ ہم نے بین الاقوامی کنونشنز میں دستخط کر دیے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کے بعد اس سے داخلہ کمیٹی کو بھیجا گیا جہاں ‘نظر نہ آنے والی طاقتوں’ نے شقیں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔
سابق وفاقی وزیر نے بتایا کہ اسمبلی سے ترامیم منظور کرلی گئیں بدقسمتی سے سینیٹ میں پہنچنے تک وہ غائب ہوگئیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘جبری طور پر لاپتہ افراد کے معاملے پر میری پوزیشن واضح ہے’ اور عمران خان نے بھی اس معاملے پر شروع سے ہی اپنی آواز بلند کی ہے اور ‘وہ آمنہ جنجوعہ کے احتجاج میں ہمیشہ جاتے رہے ہیں’۔
شیریں مزاری نے کہا کہ ‘اس کے خلاف ہم نے اپنے منشور میں بھی پوزیشن لے رکھی ہے اور آئندہ بھی ہم یہی پوزیشن لیں گے لیکن آپ جانتے ہیں کئی طاقتیں ہیں جو بل کو منظور ہونے سے روکتی ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے تحفظ کا بل بھی ‘بڑی مشکل’ سے منظور کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ بل کیسے منظور ہوا اور کیا رکاوٹیں پیش آئیں، آپ جانتے ہیں’، اگر کبھی کتاب لکھی تو یہ تمام تفصیلات شامل کروں گی۔
سابق وزیر کی جانب سے لاپتہ افراد کے بل کے حوالے سے پہلی دفعہ ان خیالات کا اظہار نہیں کیا گیا بلکہ جنوری میں وزارت انسانی حقوق میں انہوں نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ بل سینیٹ کو بھیجنے کے بعد لاپتہ ہوگیا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کو ‘مزاری فوبیا’ ہوگیا ہے
شیریں مزاری نے حالیہ گرفتاری کو ‘اغوا اور لاپتہ’ کیے جانے کا کیس قرار دیتے ہوئے تفصیلات سے آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ‘گومل روڈ پر روکا، گاڑی سے کھینچا اور ایک مرد نے آکر میرے ہاتھ سے فون کھینچا جب پولیس خواتین گھسیٹ کر باہر لے آئیں، اینٹی کرپشن یا آئی ایس آئی کی تھی مجھے کیا پتا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘پنجاب اینٹی کرپشن کو میرا فون کیوں چاہیے ہوگا، ہائی کورٹ کے حکم کے بعد آدھی رات کو مجھے ملا لیکن اس کے ساتھ اور میرے بٹوے کے ساتھ جو ہوگیا تھا وہ نا ہی پوچھیے لیکن میں نے بھی کافی سنایا’۔
شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ‘مجھے یہ پتہ چلا تھا چکری کے بعد ہم رکے ہیں تو مجھے واش روم جانا تھا اور باہر نکلے تو میں نے کہا کہ آپ کی گاڑی میں نہیں بیٹھ رہی اور وہاں چند 10، 12 لوگ کھڑےتھے تو میں نے کہا یہ مجھے گرفتار کرکے پتا نہیں کہاں لے کر جارہے ہیں تو میں نہیں بیٹھ رہی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘پھر انہوں نے پیغام دکھایا کہ ہم واپس مڑ رہے ہیں کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لے لیا ہے، درحقیقت ان کی سازش یہ تھی کہ اسلام آباد سے نکل کر لاہور یا پنجاب کی حدود میں آجائیں کیونکہ ان کو پتا تھا کہ یہاں ریلیف مل جائے گا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ان کا رویہ بہتر نہیں تھا، گاڑی سست کی اور پھر 15 منٹ بعد تیز چلائی تو پھر میرے ذہن میں آیا اور میں نے کہا کہ اگر مجھے یہی قتل کرنا ہے تو جلدی کردو اور یہاں کہیں اور لے کر جانا ہے تو لے جاؤ فیصلہ تو کرو ’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘بعد میں مجھے پتہ چلا وہ کاغذی کارروائی کے لیے مجسٹریٹ ڈھونڈ رہے تھے جو ان کو ملا نہیں، مجھے پتا تھا کہ انصاف ملنا ہی، اچھا ہوا اگر ڈی جی خان یا لاہور مڑتے تو پھر مسئلہ ہونا تھا’۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ میری بیٹی ایمان زینب مزاری اس واقعے پر بہت پریشان ہوئی تھی اور انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میری بیٹی اپنی والدہ کی گمشدگی پر پریشان تھی، انہوں نے پریس کانفرنس کی جہاں انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام لیا اور مخصوص الفاظ استعمال کیے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اب کہتے ہوئے درخواست اور ایف آئی آر درج کی جارہی کہ وہ قومی مفادات کے خلاف ہیں اور یہ دہشت گردی ہے’۔
شیریں مزاری نے کہا کہ ‘ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت مزاری فوبیا ہوگیا ہے’۔
کرپشن کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ‘سیاسی انتقام’ ہے کیونکہ مجھے الزام کے حوالے سے کبھی نہیں بتایا گیا یا وضاحت پیش کرنے کا بھی نہیں کہا گیا اور میرا نام صرف تفتیشی کے دوران گردش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ایک جاننے والے ہیں جو اینٹی کرپشن پنجاب میں تھے پھر وہ اسلام آباد آئے تو انہوں نے کہا تھا کہ آپ اسٹیبلشمنٹ پر ہاتھ ہولا رکھیں کیونکہ آپ کے خلاف کچھ مقدمات ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ شخص نے بتایا کہ جب وہ اینٹی کرپشن پنجاب میں تھے تو چند کیسز تھے جن کو روکا تھا کہ یہ غلط ہیں لیکن مجھے فون آئے کہ آپ معاملے سے ہٹ جائیں۔
شیریں مزاری نے کہا کہ میں پھر سے کہتی ہوں کہ آپ خود سمجھ جائیں کہ کدھ سے ہدایات اور دباؤ آیا تو جب مجھے گرفتار کیا تو فون کس نے کھینچا، یہ سوال اٹھتا ہے، میرے فون کی کس کو ضرورت تھی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو معلومات چاہیے ہوں گی اینٹی کرپشن کو میرے فون سے کوئی معلومات نہیں ملنی تھیں۔