امریکہ میں پولیس تحویل میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد ملک میں سیاہ فام افراد کے ساتھ پولیس کے امتیازی رویے کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے آٹھویں رات بھی جاری رہے اور ان مظاہروں کا دائرہ کئی شہروں تک پھیل چکا ہے۔
ان مظاہروں میں پرتشدد واقعات کے بعد 40 شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے تاہم متعدد شہروں میں مظاہرین کرفیو کے باوجود باہر نکلے ہیں۔
اس کے علاوہ جارج فلائیڈ کے آبائی شہر ہیوسٹن میں آج ان کے گھر والوں کے ساتھ ایک پرامن مارچ کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں 20 ہزار شرکا متوقع ہیں۔
امریکہ کے علاوہ یورپ کے متعدد ممالک جیسے کہ پیرس اور لندن میں بھی جارج فلائیڈ کی ہلاکت اور امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کے ساتھ نسلی امتیاز پر مبنی ظلم کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں
25 مئی کو شہر مینیئیپولس میں جارج فلائیڈ کو گرفتار کرنے کے دوران پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں ان کی ہلاکت ہو گئی۔
اس واقعے اور مظاہروں کے بعد ریاست مینسوٹا نے اپنے محکمہِ پولیس کے خلاف سول رائٹس کے حوالے سے ایک مقدمہ دائر کیا ہے۔ گورنر ٹم والز نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ اس مقدمے کا مقصد ’کئی نسلوں سے جاری منظم نسل پرستی‘ کو ختم کرنا ہے۔
ادھر دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں 1600 فوجیوں کو شہر کے مختلف مقامات پر تعینات کیا گیا ہے۔ پینٹاگون حکام کا کہنا ہے کہ فوجی تعیناتی کا مقصد سولین حکام کے جاری آپریشنز میں ان کی مدد کرنا ہے
جہاں کئی مقامات پر یہ مظاہرے پرتشدد ہو گئے ہیں، وہیں کچھ شہروں میں پولیس اور فوجی اہلکاروں نے مظاہرین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی بھی کیا ہے اور ان کے ساتھ مارچ کیا یا احتجاج میں علامتی طور پر گھٹنے ٹیکے۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کو سرکاری پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ’قتل‘ قرار دیا گیا ہے۔
ہینیپین کاؤنٹی میڈیکل اگزیمینر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جارج کا سانس رکنے کی وجہ سے انھیں دل کا دورہ پڑا تھا
جارج کی گردن پر گھٹنا ٹیکنے والے پولیس افسر ڈریک شیوان پر ’غیر ارادی قتل‘ کا الزام عائد کیا گیا ہے اور وہ اگلے ہفتے عدالت میں پیش ہوں گے۔ ان کے ساتھ تین دیگر پولیس افسران کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے۔
لیکن پولیس تحویل میں جارج کی ہلاکت کے رد عمل میں شروع ہونے والے مظاہروں میں ایسے پر تشدد واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی مثال کئی دہائیوں میں نہیں ملتی۔
سوموار کو میسوری کے شہر سینٹ لوئس میں جاری بدامنی کے دوران چار پولیس والوں کو گولیاں مار کر زخمی کر دیا گیا
مقامی پولیس کے سربراہ کرنل جان ہیڈن جونیئر نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا ’بعض بزدلوں نے پولیس افسروں پر گولیاں چلائیں اور ہمارے چار لوگ ہسپتال میں ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ زندہ ہیں۔‘
اس کے علاوہ نیو یارک کے معروف ڈیمپارٹمنٹل سٹور میسیز کو توڑ کر لوگ اس میں گھس گئے اور ایک نائیکی کے سٹور کو لوٹ بھی لیا گیا جبکہ دوسری کئی دکانوں اور بینکوں کے شیشے توڑ دیے۔ اس معاملے میں بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور شہر میں منگل کو رات آٹھ بجے سے دوبارہ کرفیو نافذ کیا جا رہا ہے۔
فلائیڈ کی ہلاکت نے امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل اور نسل پرستی کے گہرے زخم کو تازہ کر دیا ہے۔ یہ واقعہ فرگیوسن میں مائیکل براؤن کے قتل اور نیویارک میں ایرک گارنر کے قتل کے بعد پیش آیا ہے۔ خیال رہے کہ گذشتہ دونوں قتل کے بعد ’بلیک لائیوز میٹر‘ یعنی ’سیاہ فام افراد کی زندگیاں بھی اہم ہیں‘ جیسی مہم چل پڑی تھی۔
بہت سے لوگوں کے لیے غم و غصے کی یہ لہر برسوں سے جاری سماجی و معاشی عدم مساوات اور مختلف نسلوں کو امتیازی بنیادوں پر الگ تھلگ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی مایوسی کی عکاسی کرتی ہے