توہین عدالت کیس: عمران خان کو 7 روز میں دوبارہ تحریری جواب جمع کروانے کا حکم

توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو دوبارہ تحریری جواب جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے آج کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل حامد خان سے مکالمہ کیا کہ جو جواب پڑھا مجھے اس کی توقع نہیں تھی، حامد خان آپ صرف عمران خان کے وکیل نہیں عدالت کے معاون بھی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ توقع یہی تھی آپ یہاں پر آنے سے پہلے ماتحت عدلیہ سے ہو کر آئیں گے، آپ کے تحریری جواب سے مجھے دکھ ہوا، جس ماتحت عدلیہ پر بات کی گئی وہ عام آدمی کی عدالت تھی، عام آدمی کو آج بھی ہائیکورٹ سپریم کورٹ تک رسائی نہیں ملتی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ عمران خان کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے انہوں نے جوڈیشل کمپلیکس بنایا، گزرا ہوا وقت زبان سے کہی ہوئی چیز واپس نہیں جا سکتی، مجھے توقع تھی کہا جائے گا غلطی ہوئی ہے، توقع تھی آپ عدالتوں میں جاکر کہیں گیں آپ پر اعتبار ہے، عمران خان جیسے آدمی کو کیا ایسا کرنا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس عدالت عالیہ نے کہا کہ تشدد کا مسئلہ تو ہم نے بھی 3 سال سے اٹھایا، ٹارچر کی کسی بھی سطح پر اجازت نہیں دی جاسکتی، کیا کسی شخص کو لاپتہ کرنے سے بڑا کوئی ٹارچر ہوتا ہے؟ اسد طور ابصار عالم کے کیسز آپ دیکھ لیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 3 سال میں یہ عدالت وفاقی کابینہ کو معاملات بھیجتی رہی کاش اس وقت بھی یہ آواز اٹھاتے، جواب سے لگتا ہے کہ عمران خان کو احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کہا؟

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل کے بولنے پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس سائیڈ پر آجائیں اور خاموش ہو جائیں، یہ معاملہ عدالت اور توہین عدالت کے مرتکب کا ہے آپ بیٹھ جائیں۔

دریں اثنا عدالت نے شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر کو شہباز گل کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی جس پر سلمان صفدر نے کیس کا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شہباز گل ٹارچر کیس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم جاری کیا۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ میں عمران خان کے سارے بیانات ریکارڈ پر لے آتا ہوں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل کس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں ہے؟ کیا ٹارچر کی ذرا سی بھی شکایت ہو تو کیا جیل حکام ملزم کو بغیر میڈیکل داخل کرتے ہیں؟ یہ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ سے کب نمٹائی گئی اور تقریر کب کی گئی؟

وکیل نے جواب دیا کہ پٹیشن 22 اگست کو نمٹائی گئی اور تقریر 20 اگست کو کی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا تھا تو تقریر کی گئی، پیکا آرڈنینس کے تحت اداروں پر تنقید کرنے والوں کو 6 ماہ ضمانت بھی نہیں ملنی تھی، اس عدالت نے اس کو کالعدم قرار دیا تو عدالت کے خلاف مہم چلائی گئی، عدالت نے اس کی کبھی پروا نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ آپ نے توہین عدالت کے معاملے پر فردوس عاشق اعوان کی ججمنٹ پڑھی ہو گی، عدالت اوپن ہونا کلیئر میسج تھا کہ 12 اکتوبر 1999 دوبارہ نہیں ہو گا، عمران خان نے کہا کہ عدالتیں کیوں 12 بجے کھلیں، یہ عدالت کسی بھی کمزور یا آئینی معاملے کے لیے 24 گھنٹے کھلی ہے، انہوں نے بڑے اچھے انداز میں گلہ کیا، کاش اسی انداز میں ماتحت عدلیہ کے جج کو ایڈریس کرتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی لیڈر کی بہت حیثیت ہوتی ہے ہر وقت بہت اہم ہوتا ہے، اس عدالت کے کسی جج پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا، سوشل میڈیا کو سیاستدانوں نے خراب کیا ہوا ہے، اس کورٹ نے کبھی بھی پرواہ نہیں کہ کہ اس کورٹ کے بارے میں کہا کہا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مجھے ایک فلیٹ کا مالک بھی بنا دیا گیا، میری سپریم کورٹ کے ایک جج کے ساتھ فوٹو تھی جسے ایک سیاسی جماعت کا عہدیدار بنا کر وائرل کیا گیا۔

چیف جسٹس عدالت عالیہ نے کہا کہ ہمارے ادارے نے بھی بہت غلطیاں کی ہیں جن پر تنقید کو ویلکم کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ججز کی تصویریں لگا کر الزامات لگائے جاتے ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے فالوورز کو منع نہیں کرتی، آپ نے جواب میں کہا ہے مگر حقیقت میں احساس ہی نہیں، یہ عمران خان جیسے رہنما کا جواب نہیں ہے۔

عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ مجھے جواب کو واضح کرنے کا موقع دیا جائے، میں نے درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے کا نکتہ بھی اٹھایا ہے، اس کے علاوہ بھی باتیں کی ہیں، جواب کا صفحہ نمبر 10 ملاحظہ کریں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کو ہم غلط استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل افسر کے بارے میں یہ کہیں۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے عمران خان کے وکلا کو دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت دے دی گئی۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ معاملے کی سنگینی کو سمجھیں، دانیال عزیز، طلال چوہدری اور نہال ہاشمی کیسز میں سپریم کورٹ کے فیصلے دیکھ لیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ تمام عدالتی کارروائی کو شفاف رکھیں گے، توہین عدالت کیسز پر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل لازم ہے۔

دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کی کارروائی آج ختم ہو سکتی تھی مگر اس جواب کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بتائیں کہ کیا اس کیس میں کسی کو عدالتی معاون بھی مقرر کریں، اس ملک میں تبدیلی تب آئے گی جب تمام ادارے اپنا کام آئین کے مطابق کریں۔

جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ آپ کو جواب داخل کرانے کا ایک اور موقع دیا گیا ہے، آپ اس پر سوچیں۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے کیس کی سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔

صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو

قبل ازیں کیس کی سماعت کے لیے عدالتی اسٹاف اور سابق وزیراعظم عمران خان کمرہ عدالت پہنچے۔

اس موقع پر ان کے ہمراہ پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور لیگل ٹیم بھی موجود تھی جبکہ بابر اعوان اور ان کے بیٹے کو فہرست میں نام نہ ہونے کی وجہ سے کمرہ عدالت سے نکال دیا گیا۔

سماعت کے آغاز سے قبل کمرہ عدالت میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو بھی کی۔

صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ آپ کسی مرحلے پر معذرت کریں گے، عمران خان نے جواب دیا کہ میں نے عدالت میں اپنا بیان جمع کرا دیا ہے، اتنا خوف کیوں ہے میں تو اس پر حیران ہوں۔

صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ اس ملک کے اگلے وزیراعظم آپ ہیں، عمران خان نے جواب دیا کہ اللہ جانتا ہے۔

سیکیورٹی کے سخت انتظامات

دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی آمد کے پیشِ نظر اسلام آباد کیپیٹل پولیس نے خصوصی سکیورٹی پلان تشکیل دیا گیا۔

اسلام آباد پولیس کے ایک ہزار اہلکاروں کو تعینات کیا گیا، عمران خان کی پیشی کے موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں قناتیں لگا کر راستے بند کر دیے گئے۔

اسلام آباد کیپیٹل پولیس کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کے مطابق عدالت کے احاطہ میں صرف اسلام آباد ہائی کورٹ سے اجازت نامے کے حامل افراد داخل ہوسکتے ہیں، علاقہ رہائشیوں کے لیے متبادل راستوں کا انتظام کیا گیا۔

ٹوئٹ میں مزید بتایا گیا کہ اجازت نامے کے حامل اسٹاف کو محدود نقل و حمل کی اجازت ہوگی جبکہ کسی بھی معلومات یا ایمرجنسی کے لیے ریسکیو 15 پر کال کرنے کی ہدایت دی گئی۔

پسِ منظر

خیال رہے کہ عمران خان نے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ دینے والی ایڈیشنل جج زیبا چوہدری کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آپ کے خلاف کارروائی کریں گے۔

شہباز گل کی گرفتاری اور جسمانی ریمانڈ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ شہباز گل کو جس طرح اٹھایا اور دو دن جو تشدد کیا، اس طرح رکھا جیسا ملک کا کوئی بڑا غدار پکڑا ہو، آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی کو ہم نے نہیں چھوڑنا، ہم نے آپ کے اوپر کیس کرنا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ مجسٹریٹ زیبا صاحبہ آپ بھی تیار ہوجائیں، آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے، آپ سب کو شرم آنی چاہیے کہ ایک آدمی کو تشدد کیا، کمزور آدمی ملا اسی کو آپ نے یہ کرنا تھا، فضل الرحمٰن سے جان جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز گل کے ساتھ انہوں نے جو کیا، انہوں نے قانون کی بالادستی کی دھجیاں اڑا دیں، آج اپنے وکیلوں سے ملاقات کی ہے، آئی جی، ڈی آئی جی اور ریمانڈ دینے والی اس خاتون مجسٹریٹ پر کیس کریں گے۔

بعدازاں 21 اگست کو عمران خان کے خلاف اعلیٰ سرکاری افسران کو دھمکیاں دینے کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پولیس ایف آئی آر کے مطابق اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ مرگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر 26 اگست کو عمران خان کو ارسال کیے گئے توہین عدالت کے شوکاز نوٹس کے متن میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے خاتون جج کے بارے میں توہین اور دھمکی آمیز تقریر اس وقت کی جب کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا۔

شوکاز نوٹس میں کہا گیا کہ عمران خان نے توہین اور دھمکی آمیز تقریر من پسند فیصلہ لینے کے لیے کی اور اس تقریر کے ذریعے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی، عمران خان نے خاتون جج کو دھمکی دے کر کریمنل اور جوڈیشل توہین کی۔

شوکاز نوٹس میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ 31 اگست کو پیش ہو کر بتائیں کہ آپ کے خلاف توہین عدالت کارروائی کیوں نہ کی جائے۔

اس موقع پر لارجر بینچ نے اس معاملے پر 3 سے زیادہ ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دینے کے لیے کیس چیف جسٹس کو بھجوا دیا تھا۔

بعدازاں 27 اگست کو عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس بابر ستار اور جسٹس طارق محمود جہانگیری لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کروا دیا تھا جس میں انہوں نے خاتون جج زیبا چوہدری سے متعلق الفاظ واپس لینے کی پیشکش کی تھی۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے استدعا کی تھی کہ جن ججوں نے کیس شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی وہ بینچ سے دستبردار ہونے پر غور کریں کیونکہ وہ اس معاملے کا پہلے سے فیصلہ کرچکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں