تلخ حقیقت

تحریر : عمران ذاکر

مجھے یہ لکھتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان تعلیمی اعتبار سے پاکستان میں صف اول پر ہے۔اس خطے نے ایسے ثبوت پیدا کئے ہیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے ۔آپ کسی بھی شعبے پر نظر ڈالیں جہاں جہاں گلگت بلتستان کے باشندوں نے حصہ لیا ہے خواہ وہ کھیل کا میدان ہو،افواج پاکستان میں خدمات ہوں،صحت کا شعبہ ہو گلگت بلتستان والوں نے اپنے خطے کا نام دنیا بھر میں روشن کیا ہے۔جغرافیائی اعتبار سے گلگت بلتستان کو وہ اہمیت حاصل ہے جو کسی اور خطے کو نہیں ۔ ایک طرف سیاچن کا محاذ ہے اور دوسری طرف پاکستان کا قریب ترین دوست ملک چین ۔
سی پیک کے منصوبے کو پاکستان کی ریڑھ کی ہڑی کی حیثیت حاصل ہے ۔گلگت بلتستان کے آبی وسائل پورے پاکستان کو سیراب کرتے ہیں، یہ وہ خطہ ہے جس کے بچے سے لے کر بزرگ تک پاکستان کی محبت میں قربان ہیں۔

یہ شہد میں لپٹی ہوئی باتیں سننے میں بہت اچھی لگتی ہیں مگر اگر گلگت بلتستان کے مسائل پر نظر دوڑایں تو یہ معلوم ہو گا کہ یہاں کے لوگ روزانہ کی بنیاد پر اذیت سے گزرتے ہیں۔ یہاں ڑیم اور پانی تو ہے لیکن لوگوں کے گھروں میں پانی میسر نہیں، قدرتی چشمے تو موجود ہیں مگر لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، پیٹرول سٹیشن تو ہیں مگر لوگوں کو پیٹرول دستیاب نہیں،ہسپتال تو ہیں مگر ان میں طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔غرض یہ کہ آپ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی پر نظر ڈالیں گلگت بلتستان میں محرومیں ہی پائیں گے ۔

ایک نظر اپنے شہر اسکردو پر بھی ضرور ڈالنا چاہوں گا۔اسکردو شہر میں اندازن دس سے بارہ پیٹرول پمپ ہوں گے ۔ایک دن گلگت اسکردو روڈ بلاک ہونے کی صورت میں شہر بھر کے پیٹرول پمپ اپنی سیل بند کر دیتے ہیں۔امومن 29 سے 30 تاریخ کو جب پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا اندیشہ ہو تو تمام پیٹرول پمپ عوام کے لئے بند کر دئے جاتے ہیں۔بلتستان ڈویزن میں چار اضلاع ہیں اور اسکردو سب سے بڑا ضلع بھی ہے اور ہیڈ کوارٹر بھی۔پورے بلتستان ڈویزن میں پیٹرول ذخیرہ کرے کی کوئی سہولت موجود نہیں،ایک جگہ بہت سال پہلے مختص کی گئی تھی مگر اب اس کا کوئی نام و نشان نہیں ۔ترقیاتی منصوبوں پر نظر دوڑایں تو آے روز ناقص سڑکوں کی تعمیر ہوتی ہے جن کی زندگی زیادہ سے زیادہ 3 سے چار ماہ ہوتی ہے،اس خستہ حال تعمیر کے پیچھے بھی ایک پوری سائنس ہے۔جتنی جلدی روڑ خراب ہوگی اتی ہی جلدی دوبارہ تعمیر کا ٹھیکا نکلے گا اور اسی طرح یہ سلسلہ سالوں سے چلتا آ رہا ہے۔میں نے محسوس کیا ہے کہ لوگ زیادہ تر غصہ ہمارے ٹھیکے دار بھائیوں کو برا بھلا کہہ کر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں بے چارہ ٹھیکے دار بھی کیا کرے جگہ جگہ اسے حکومتی افسران انجینئرز کو رشوت، کمیشن،کک بیکس دینے پڑتے ہیں اور جو بچی کچی رقم رہ جاتی ہے اس سے تعمیراتی کام کیا جاتا ہے جو لازمی طور پر ناقص ہی ہوگا۔یہاں ایک اور طریقہ واردات ہے بڑا ٹھیکیدار ٹھیکا کام کرنے سے پہلے ہی چھوٹے ٹھیکیدار کو بیچ دیتا ہے بے چارہ چھوٹا ٹھیکیدار اپنے لئے کچھ مال بچا کر آٹے میں نمک کے برابر پیسہ تعمیر پر لگاتا ہے۔یہ ایک پورا طریقہ واردات ہے جو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گلگت بلتستان میں عام ہے۔

اگر آپ سول ملازمین کی تنخواہوں پر غور فرمائیں تو معلوم ہوگا کہ وہ ضرورت سے زیادہ اچھی ہیں اور وہ اس لئے اچھی ہیں کہ حکومتی نمائندے اپنا کام ایمانداری سے کریں اور بیشتر کر بھی رہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں نا کہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے ایسے ہی کچھ لوگ معصوم عوام کو اپنے دفتروں کے باہر گھٹنوں ان کی تذلیل کرتے ہیں۔کرونا کی وبا اپنے عروج پر ہے پوری دنیا کی طرح گلگت بلتستان بھی اس سے شدید متاثر ہے۔تمام تعلیمی ادارے،ہوٹل،دکانیں مکمل بند ہیں لوگوں کے کاروبار تباہ ہو چکے ہیں مگر دوسری جانب دیکھیں تو شادیاں اور دیگر تقاریب معمول سے ہو رھی ہیں۔ٹاون پلانگ نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی جس کا دل کرتا ہے رہائشی علاقے میں دکان دفتر بنا لیتا ہے جو مہذب دنیا میں جرم ہے،پبلک ٹرانسپورٹ کا ناظام تباہ حال ہیں سڑکیں نہ ہونے کے برابر ہیں جہاز کا ٹکٹ اتنا مہنگا ہے کہ سفید پوش انسان اس پر سفر کر ہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے دوستو لسٹ طویل ہے جس کا زکر پھر کبھی کروں گا۔ایک شہری ہونے کے ناتے ہم سب پر فرض ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کریں ہم با شعور قوم ہیں ہم چپ چاپ نہیں بیٹھیں گے ۔آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے میری آپ سب سے گزارش ہے کہ نا حق کے خلاف آواز بلند کریں تاکہ باقی لوگ بھی دیکھا دیکھی اس میں شامل ہو جائیں ۔تحریر تھوڑی طویل ہو گئی جس کے لئے معذرت خواہ ہوں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں