ترکی میں مہنگائی عروج پر، لیرا کی قدر میں تاریخی کمی

ترکی کے مرکزی بینک نے صدر رجب طیب ایردوآن کے دباؤ کے بعد مسلسل تیسرے مہینے بھی شرح سود میں کمی کا اعلان کیا ہے اور نتیجے کے طور پر ترک کرنسی لیرا کی قدر ڈالر کے مقابلے میں نچلی ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

ترکی کے مرکزی بینک نے افراط زر اور تیزی سے گرتی ہوئی کرنسی کی قدر کے باوجود پالیسی ریٹ کو سولہ سے کم کرتے ہوئے پندرہ فیصد کر دیا ہے۔ لیرا کی موجودہ کارکردگی اور قدر کے حوالے سے سن دو ہزار اکیس میں اُبھرتی ہوئی مارکیٹوں کی بدترین کرنسی قرار دے دیا گیا ہے۔

مرکزی بینک کے اعلان سے پہلے ہی لیرا کی قدر ایک ڈالر کے مقابلے میں 10.98 کی سطح پر پہنچ گئی تھی اور یہ لیرا کی اب تک کی کم ترین سطح ہے۔

ترک صدر ملک میں سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے بلند شرح سود کے واضح مخالف ہیں اور انہوں نے بدھ کے روز کہا تھا کہ وہ شرح سود میں مزید کمی لائیں گے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا، ”جب تک میں اس پوزیشن پر ہوں، میں (زیادہ) شرح سود کے خلاف لڑتا رہوں گا، میں مہنگائی کے خلاف بھی لڑتا رہوں گا۔‘‘

مہنگائی عروج پر

رواں سال کے آغاز سے ترک کرنسی لیرا ڈالر کے مقابلے میں اپنی تیس فیصد قدر کھو چکی ہے جبکہ سالانہ افراط زر کی شرح تقریباً 20 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ شرح حکومتی ہدف سے چار گنا زیادہ بنتی ہے۔ ترک باشندے لیرا کو غیر ملکی کرنسیوں اور سونے میں تبدیل کر رہے ہیں تاکہ اپنی کم ہوتی بچت کو محفوظ رکھ سکیں۔

 ترکی کی معاشی صورتحال پر نظر رکھنے والے صحافی اکریم اکیچی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں اور لیرا کی قدر میں کمی کی وجہ سے ترک عوام میں بے چینی پیدا ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”جب آپ اپنے ملک کی کرنسی کو تیزی سے گرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ چیزیں قابو سے باہر چکی ہیں۔‘‘

ان کا ترک صدر پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ زیادہ شرح سود کو مہنگائی کی اصل وجہ قرار دیتے ہیں اور ان کی یہ پالیسی روایتی معاشی نظریات سے متصادم ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”جب شرح سود بڑھ جاتی ہے تو قرض لینے میں کمی آتی ہے، جس سے صارفین کم خرچ کرتے ہیں اور مہنگائی رکتی ہے۔‘‘

 اکریم اکیچی کے مطابق ترکی میں انتخابات تو سن دو ہزار تئیس میں ہونے ہیں لیکن آج کے عوامی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ ترک صدر کی مقبولیت میں کمی ہو رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں