قرضوں کے سر اٹھاتے بحران کی وجہ سے غریب ممالک کے مجموعی حالات بہت مشکل ہو جائیں گے۔ اس وقت ترقی پذیر اقوام کو عالمی کساد بازاری کی شدت کا بھی سامنا ہے۔دنیا کے بعض غریب ترین ممالک کو درپیش قرضوں کے بحران کی بڑی وجہ کووڈ انیس کی وبا ہے۔ رواں برس 70 فیصد سے زائد کم آمدن والی اقوام کو قرضوں کی اضافی قسطوں کی ادائیگی کی مد میں 11 بلین ڈالر (قریب دس بلین یورو) کا سامنا ہے۔ یہ سن 2020 کے مقابلے میں 45 فیصد زیادہ ہے۔غریب ممالک کو درپیش اس بحران کی نشاندہی عالمی بینک (ورلڈ بینک) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کی ہے۔ عالمی بینک نے ان قرضوں کے معاملے کو مخفی غیر شفاف قرضے قرار دیا ہے اور ان کی وجہ سے کم آمدنی والے افراد اور چھوٹے کاروبار رکھنے والوں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
منصفانہ ریکوری ممکن ہے؟
عالمی بینک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں اپنی توجہ عالمی اقتصادیات کے چند مخصوص پہلووں پر مرکوز کی ہے۔ ان میں خاص طور پر متوسط اور کم آمدنی والے ممالک کی معاشی ترقی پر بھی نظر رکھی گئی ہے۔
ورلڈ بینک کی سالانہ رپورٹ کا عنوان ‘مالیات برائے منصفانہ ریکوری‘ تجویز کیا گیا ہے۔ اس میں بحث کی گئی ہے کہ غیر مستحکم مالیاتی نظام کی وجہ سے ترقی پذیر معیشتوں پر قرضوں کا بوجھ پہاڑ کی ہیئت اختیار کر رہا ہے اور اس کی وجہ سے انہیں دوسرے مالیاتی مسائل کا سامنا ہے، جن میںبڑھتی افراطِ زر اور شرحِ سود خاص طور پر اہم ہیں۔سالانہ رپورٹ میں ورلڈ بینک کے صدر ڈیوڈ ملپاس نے تحریر کیا کہ افراطِ زر سے اٹھنے والے اقتصادی بحران کے ساتھ بلند شرحِ سود اصل میں کمزور مالیاتی سلسلے کا شاخسانہ ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ کورونا وبا نے اقتصادی چیلنجز کو زیادہ شدت کے ساتھ واضح کر دیا ہے۔ ان چیلنجز میں غیر استعمال شدہ قرضوں کی شفافیت اور قرض ادائیگیوں میں تاخیر ہے۔
معاشی خطرات
عالمی بینک کے مطابق ناقص قرضوں کی نشاندہی نہ کرنا ان کو مزید خراب کرنے کے مترادف ہے۔ اس تناظر میں مزید کہا گیا کہ قرضوں کی نشاندہی قرض دینے والے ملک کے معاشی استحکام لیے بہتر ہوتا ہے اور دوسری جانب خاص طور پر چھوٹے کاروبار اور کم آمدنی والے افراد کے گھروں کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ اس رپورٹ میں ایسے خطرات کی وضاحت کی گئی ہے جن کی وجہ سے قرض دینے کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دنیا بھر میں 50 فیصد گھروں کو اگلے تین ماہ کے دوران شدید مشکلات کا سامنا ہو گا کیونکہ بنیادی ضروریات کو پورا کرنا بھی ایک تکلیف دہ امر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی بیان کیا گیا کہ اقتصادی مشکلات کی شدت اتنی بڑھ سکتی ہے کہ اوسط درجے کے کاروبار بمشکل دو ماہ کے اخراجات پورے کر سکیں گے۔
ترجیحات دوبارہ مرتب کرنا ضروری
اس رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں نصف کاروبار وبا کے بعد کے وقت میں زوال پذیر ہو جائیں گے۔ ورلڈ بینک کی چیف اکانومسٹ کارمین رائنہارٹ کا کہنا ہے کہ بحرانی حالات سے قبل کئی معاشی کمزوریاں سامنے بھی نہیں آئی تھیں اور اس عمل نے بھی صورت حال کو گھمبیر بنایا ہے۔
کارمین رائنہارٹ نے تجویز کیا ہے کہ اب ترجیحات کو ازسرنو مرتب کرنا ہو گا اور ایسے اقدامات متعارف کرانے ہوں گے جن سے مستحکم مالیاتی نظام استوار کیا جا سکے اور اگر ایسا کرنے میں تاخیر ہوئی تو کمزور معیشتوں کی صورت حال سنگین ہو جائے گی۔
ورلڈ بینک کے مطابق کئی ممالک ادائیگیوں میں ناکامی کے خطرے سے دو چار ہیں۔ ان ممالک میں سری لنکا اور گھانا بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 60 فیصد کم آمدنی والے ممالک کے قرضوں کو نئے قواعد کی روشنی میں مرتب کرنا ضروری ہو گیا ہے۔