تحریر: جاوید صدیق——دارالحکومت سے——یہ کھیل کب تک——؟؟؟

ناظرین گذشتہ چند ہفتوں میں پاکستان کی سیاست نے ایک انوکھا ٹرن لیا ہے۔ روایتی طور پر ہمارے سیاستدان ور سیاسی جماعتیں سیاسی میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں الزامات اور جوابی الزامات کی روایت رہی ہے۔ ڈرائنگ روم سیاست بھی ہماری سیاسی روایت کا حصہ رہی ہے۔ حکومتوں کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے سازشیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریکیں بھی پیش ہوتی رہی ہیں۔
لیکن ٹیکنالوجی خاص طور پر کمیونیکیشن ٹیکنالوجی میں جو زبردست ترقی ہوئی ہے اس کا اثر ہم پاکستان کی سیاست میں دیکھ رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سیاستدانوں کے فون ٹیپ ہوتے تھے۔ خاص طور پر ان سیاستدانوں کے جن کے بارے میں شبہ ہوتا تھا کہ وہ ملک کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ حکومتوں کو انٹیلی جنس ایجنسیاں اپوزیشن کی سرگرمیوں سے آگاہ رکھنے کے لیے اپوزیشن کے سیاستدانوں کے فون ٹیپ کرتی رہی ہیں۔ یہاں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے فون ٹیپ کئے جاتے رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء میں جب اُن کے سیاسی مخالفین قومی اتحاد پلیٹ فارم سے ان کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلارہے تھےاسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر کی فون کی ٹیپ حاصل کرلی تھی۔ اسی فون کال میں امریکی سفیر نے واشنگٹن کو فون پر بتایا تھا کہ “دا پارٹی ایک اوور” “The party is over”یعنی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا کھیل ختم ہے۔
اس ٹیپ کی بنیاد پر مسٹر بھٹو نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” جنٹلمین دا پارٹی از ناٹ اوور” یعنی جناب پارٹی ختم نہیں ہوئی۔ اس تقریر کے بعد ہی بھٹو حکومت اور امریکی کے درمیان غلط فہمیاں عروج پر پہنچ گئی تھیں۔
بات ہورہی تھی آڈیو لیکس اور فون ٹیپنگ کی۔ آج کل حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ایک دوسرے پر آڈیو ٹیپس کے ذریعہ حملے شروع کررکھے ہیں۔ کچھ دن پہلے وزیراعظم ہاؤس می ہونے والی بات چیت کی آڈیوز لیک ہوئی تھیں جن کی تحقیقات شروع ہو چکی ہیں۔ ان آڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس جہاں کی سیکیورٹی سخت ترین کی جاتی ہے۔ وہاں ہونے والی گفتگو بھی محفوظ نہیں۔ فواد چوہدری کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کو بتایا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس “Bug”ہورہا ہےآپ اسے ڈی بگ کرائیں۔
ان آڈیو لیکس کو تحریک انصاف اور اس کی قیادت حکومت کے خلاف استعمال کررہی ہے۔ حکومت نے سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ایک عہدیدارڈونلڈ لو کی واشنگٹن میں ہمارے سفیر اسد مجید خان سے ہونے والی گفتگو پر مبنی سائفرCipherکو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ویڈیو جاری کردی ہے۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ خان صاحب سائفر کو حکومت اور فوج کے خلاف استعمال کرنے کی ایک باقاعدہ حکمت عملی بناتے رہے۔ ان کی اپنی پارٹی کے عہدیداروں اسد عمر، شاہ محمود قریشی ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور شیریں مزاری کی آڈیو بھی آگئی ہے۔کچھ باخبر حلقے دعویٰ کررہے ہیں کہ ابھی اور بھی آڈیو ز اورویڈیوز آنے والی ہیں جو بڑی سنسنی خیز ہیں۔دوسری طرف ملک کے تین کروڑ سے زائد لوگ سیلاب سے بے گھر ہوچکے ہیں اور لٹے پٹے عارضی پناہ گاہوں میں امداد کے منتظر ہیں۔ عالمی برادری نے جو مدد کرنا تھی وہ کم وبیش آچکی ہے۔ ان سیلابوں سے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہےاسے پورا کرنا فوری طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔
اسحاق ڈار کو حکوتم نے لانچ کردیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میرا نام سن کر ہی ڈالر کی قیمت گرنا شروع ہوگئی ہےانہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکال لیں گے۔ لیکن عالمی بینک کا کہنا ہے کہ سیلابوں کے باعث پاکستان کی معیشت کی گروتھ 2فیصد تک رہے گی۔ تیل اور غذائی اجناس کی امپورٹ پر بھاری زرمبادلہ خرچ ہوگا۔ جو پاکستان کے پاس نہیں ہے۔ موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ بی سے کم کرکے سی کردی ہے۔ ایک طرف معیشت تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف آڈیوز لیکس کی لڑائی عروج پر ہےملک کو بچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آرہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں