عمران خان کا 25 مئی کا احتجاجی مارچ جسے انہوں نے آزادی مارچ کا نام دیا تھا وہ ہوچکا ہے۔ خان صاحب مانتے ہیں کہ یہ مارچ توقع کے مطابق نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اب پوری تیاری کے ساتھ جون میں دوبارہ مارچ کروں گا۔
سیاست میں ناتجربہ کاری کی قیمت خان صاحب باربار اداکرنی پڑرہی ہے۔ جب 2018 ء میں ان کو حکومت ملی تو انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ملک کے معاشی مسائل سالوں نہیں بلکہ ہفتوں میں حل کردیں گے۔انہوں نے بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ایک کروڑ نوکریاں دینےاور پچاس لاکھ گھر بے گھر لوگوں کو دینے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا تھے کہ بیرون ملک پاکستان جن کی اکثریت عمران خان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے اور وہ پاکستان پر ڈالروں کی بارش کردیں گے۔اُن کا یہ خواب بھی مخص ایک سراب تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ عمران خان نےبیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم کی ترسیل کو آسان بنانےاورانہیں بینک کے چینل سے بھیجنے کے لیے طریقہ کار بنایا جس سے ترسیلات میں اضافہ ہوااورسالانہ ترسیلات 30 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔
لیکن بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی طرف سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری مخص ایک خواب ہی رہا۔ کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس سے لوٹی ہوئی قومی دولت وصول کرنے کے لیے احتساب کے نظام کو کڑا بنانے کی ان کی کوششیں بھی کامیاب ثابت نہ ہوسکیں۔ انہوں نے ناجائزاثاثوں کی ریکوری کے لے جو قومی ادارہ “ایسٹس ریکوری یونٹ” کے نام سے بنایا تھا اس کے سربراہ بیرسٹر شہزاداکبرکو خان صاحب نے تین سال بعدیہ کہہ کر ہٹا دیا کہ وہ غیرقانونی طور پربنائے گئے اثاثوں اور رقوم کو ریکورکرنے میں ناکام رہے ہیں۔ شہزاداکبر ان دنوں منظر سے غائب ہیں ایک اطلاع یہ ہے کہ وہ ملک سے کھسک گئے ہیں۔
جہاں تک گوررنس کا سوالہے کہ خان صاحب نے خود اعتراف کیا ہے کہ حکومت سنبھالنے کے ایک سال تک یہ پتہ پتہ ہی نہیں چل سکل کہ حکومتی معاملات کو کیسے چلانا ہے؟ بیوروکریٹس ان کو چکردیتے رہے۔ بیورکریسی کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے جو طریقے وضع کئے گئے وہ مؤثر ثابت نہ ہوئے۔
احتساب کے نتائج بھی وہ نہ نکلے جن کی عمران خان اور ان کی حکومت توقع کررہےتھے۔ عمران خان یہ بھی اب مانتے ہیں کہ احتساب کے اداروں اور عدالتوں نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔موجودہ وزیراعظم شہباز شریف ان کا یک اہم حدف تھے ان کی کوشش تھی کہ شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کے کسی میں اندر کیا جائے۔ حمزہ شہباز کو بھی جیل میں دیکھنا چاہتے تھے لیکن شہباز شریف اب ملک کے وزیراعظم اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اس بات پر وہ بہت برہم اور اپنے جلسوں میں وہ باپ بیٹے کو خوب لتاڑ رہے ہیں۔
2018 ء کے انتخابات میں تحریک انصاف پاکستان اور اس کے سربراہ جو ایجنڈا لے کر آئے تھے وہ اس پر عملدرآمد نہ کرسکے۔اس میں شک نہیں کہ کووڈ-19کی وباکو قابو کرنے کے لیے ان کی حکومت کے اقدامات مؤثرتھے۔یہ اقدامات اس لئے مؤثر تھے کہ فوج کے ادارہ نے انہیں ایک نظام این سی او سی کے نام سے بنا کر دیا تھاکووڈ-19کے پاکستان پر اس طرح کے مضراثرات نہیں مرتب ہوئے جو بھارت اور دوسرے ملکوں میں دیکھے گئے۔
تحریک انصاف پاکستان کی حکومت اپنی مدت پوری کئے بغیر ساڑھے تین سال میں فارغ ہوکر سڑکوں پر آگئی ہے۔ غصے سے بھرے ہوئے عمران خان اور ان کے ساتھی امریکہ اور فوج حکومت کے خاتمہ کا ذمہ دار ٹھہرارہے ہیں۔ فوری انتخابات کا مطالبہ منوانے کے لئے احتجاج کررہے ہیں۔ 25مئی کو انہوں نے”حقیقی آزادی مارچ” شروع کیا اوردعویٰ کیا کہ بیس لاکھ افراد لے کر اسلام آباد آئیں گے اور نئے انتخابات کی تاریخ لے کر اسلام آباد سے جائیں گے۔انہیں اور ان کے بعض تجربہ کار ساتھیوں کو یہ علم نہیں تھا کہ پاکستان میں بیس لاکھ افراد کو سڑک پر نکالنا کس قدر مشکل کام ہے۔پاکستان میں صرف 10 اپریل 1986 ء کو بے نظیر کی لندن میں جلاوطنی کے بعد وطن واپسی لاہور میں استقبال کی واحدمثال ہے جس میں دس لاکھ افراد نے شرکت کی تھی۔اس معاملے میں بھی خان صاحب مار کھا گئےہیں اب وہ کہہ رہے ہیں کہ چند روز کے بعد وہ پوری تیاری کے بعد ایک مرتبہ پھر اسلام آباد تک مارچ کریں گے اور انتخابات کی تاریخ لیں گے۔ ساتھ ہی اب انتخابات کے لیے مذاکرات کا عندیہ بھی دے رہے ہیں۔
ان کے پرانے اور تجربہ کار ساتھیوں کو تحریک انصاف پاکستان کے سربراہ کو ضرورمشورہ دینا چاہیے کہ وہ سیاست میں غصے اور تیقن کو کم کر کے ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر حکمت عملی بنائیں اورنئے انتخابات کے لئے قابل عمل لائحہ عمل مرتب کریں ۔کہتے ہیں کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے۔