تحریر: جاوید صدیق۔۔۔۔۔۔دارالحکومت سے۔۔۔۔۔۔غیر جانبداررہیں، لاتعلق نہ رہیں

اچھی بات ہے کہ فوج نے سیاسی معاملات میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔”دیرآید ” لیکن سیاسی حلقے اور باخبر عوامی حلقے ماننے کے لیے تیار نہیں کہ فوج نیوٹرل یعنی غیر جانبداررہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان تو برملا کہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں “نیوٹرلز”نے اقتدارسے باہر کیا ہے اور جو حکمران اب آئے ہیں وہ “نیوٹرلز”کے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتے۔
75سالوں میں پاکستان کے سیاسی معاملات سیاست دانوں نے کم اور “نیوٹرلز” نے زیادہ چلائے ہیں۔
اکتوبر1958ءمیں پہلا ٹیک اوور اس لئے کیا گیا کہ سیاستدان نہ صرف نااہل تھے بلکہ وہ کرپٹ بھی تھے۔ 1969ءمیں جنرل یحییٰ نے ایوب خان کے اس منصوبے کو جس کے تحت وہ اقتدار اس وقت کے اسپیکر کے حوالے کر کے اقتدار سے الگ ہونا چاہتے تھے ی کہہ کر مسترد کردیااسپیکر کون ہوتا ہے؟ وہ پاکستان کے مسائل کو حل کرسکتا ہے۔ سابق صدر جنرل ایوب خان کے بیٹے گوہرایوب کے مطابق یحییٰ خان نے اقتدار اسپیکر کے حوالے کرنے اور نئے انتخابات کرانے کے فیصلے کو یہ کہہ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا “یہ بوڑھا یعنی”جنرل ایوب خان” پاگل ہوگیا ہے۔”
1977ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو اوران کی اپوزیشن سے مذاکرات تقریباً کامیاب ہوگئے تھےکہ پانچ جولائی 1977ء کو نوے دن کے لیےمارشل لاء لگایا گیا جو کئی ہزاردن تک جاری رہا۔
بارہ اکتوبر 1999ء میں ایک اور ٹیک اوور ہوا جو کم و بیش دس سال تک جاری رہا۔ 2018ء میں پرانی سیاسی قیادت کی جگہ ایک نئی قیادت کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا گیا۔ یہ نئی قیادت تجربے کرتی رہی اور ملک بھی مصیبتوں میں پھنستا چلا گیا۔
اپریل 2022ء میں نئی قیادت سے مایوس ہو کر پھر پرانے لوگوں کو سرکاری عہدوں پر بٹھا دیا گیا۔ ان پرانے لوگوں پر کرپشن، منی لانڈرنگ اور قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کے سنگین الزامات کے تحت احتساب بیورونے عدالتوں میں ریفرنس دائر کئے۔ ان ریفرنسوں کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوپایا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ جن پرانے حکمرانوں کے خلاف لوٹ مار کے سنگین الزامات کے تحت مقدمات چل رہے تھے انہوں نے پیسے اور اثرورسوخ کے زورپر ان ریفرنسوں کے فیصلے نہیں ہونے دئیے۔
موجودہ وزیراعطم اور ان کے صاحبزادے جو پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں کے خلاف منی لانڈرنگ کے ریفرنس عدالتوں میں ہیں۔ ان ریفرنسوں میں دونوں اب بھی عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں۔ ملک کے سابق صدر اورپیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں وہ بھی اب حکمران بن گئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر اس بات کا جائزہ لینا شروع کرایا ہے کہ جن بااثرسیاستدانوں کے خلاف سنگین الزامات میں مقدمات چل رہے ہیں ان کی تفتیش کرنے والے افسران کو کیوں تبدیل کیا جارہا ہےاورکیا ان مقدمات کے ثبوت تہ خانے میں کئے جارہے ہیں۔
چیف جسٹس نے خبردار کیا ہے کہ ایسا نہ کیا جائے ہم صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
موجودہ حکمران جن میں سے بعض کلیدی حکومتی عہدوں پر ہیں نیب کے قوانین کو بھی تبدیل کررہے ہیں تاکہ نیب کے دانت نکال دیئے جائیں اوروہ کرپشن کرنے والوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ نیب کا اگلا سربراہ بھی کوئی ایسا شخص ڈھونڈا جارہا ہے جو “ہتھ ہولا” رکھے۔
ادھر معاشی صورتحال اس قدر بگڑرہی ہے کہ وہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے۔
ان حالات میں جن شخصیات نے “نیوٹرل” رہنے کا فیصلہ کیا ہے وہ نیوٹرل رہیں لیکن ملکی معاملات سے لاتعلق نہ رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں