تازہ ترین آڈیو اسکینڈل: پاکستانی سیاست کس طرف جا رہی ہے؟

پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب کی جانے والی متنازعہ آڈیو لیک سے ملک کے سیاسی منظرنامے پر بھونچال آ گیا ہے۔ اس آڈیواسکینڈل کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ مختلف حلقوں نے کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ایک روز پہلے ‘فیکٹ فوکس’ نامی ویب سائٹ سے منظر عام پر آنے والی ایک ایک آڈیو میں دو افراد کو گفتگو کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ گفتگو کرنے والے دونوں افراد اپنی شناخت ظاہر تو نہیں کرتے مگر وہ گفتگو کے دوران ملک کے سابق وزیراعظم ‘نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو سنائی جانے والی سزاؤں کے لیے دباؤ ڈالنے‘ کی بات کر رہے ہیں۔

جسٹس (ر) ثاقب نثار نے خود سے منسوب تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے اس آڈیو کو جعلسازی کا نتیجہ قرار دیا ہے اور کہا ہے  کہ انہوں نے کسی سے ایسی کوئی بات نہیں کی ہے۔

اس آڈیو لیک کی ٹائمنگ کیوں اہم ہے؟

یہ ویڈیو ایک ایسے موقعے پر سامنے آئی ہے  جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو سنائی جانے والی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت ہو رہی ہے۔  چند دن پہلے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کی طرف سے بھی ایک بیان حلفی سامنے آیا تھا جس میں جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے ایک ساتھی جج کو مبینہ طور پر نواز شریف کو دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن سے پہلے ضمانت نہ دینے کی بات کی گئی تھی۔

مسلم لیگ نون کا موقف کیا ہے؟

پاکستان مسلم لیگ نون کے صدرشہباز شریف نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس کے سامنے آنے والے نئے آڈیو کلپ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو سیاسی عمل سے باہر رکھنے کے لیے ایک بڑے منصوبے کے تحت نشانہ بنایا گیا۔ ان کے بقول وقت آ گیا ہے کہ ان کے ساتھ روا رکھی جانے والی غلطی کو ٹھیک کیا جائے۔ ‘پوری قوم نظام عدل کی طرف دیکھ رہی ہے۔‘‘

کیا مبینہ آڈیو سے نواز شریف کو عدالت میں کوئی ریلیف مل سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں مختلف ماہرین قانون کی طرف سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد احسن بھون ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ سوال بہت قبل از وقت ہے ابھی تو اس آڈیو کے اصلی یا جعلی ہونے کا تعین ہونا باقی ہے۔ ان کے بقول عدالتیں ٹھوس شواہد کی بنا پر فیصلے کرتی ہیں اس لیے اس آیڈیو کی قانونی حیثیت تو کوئی نہیں البتہ اس کی پراپیگنڈہ ویلیو ہو سکتی ہے۔دوسری طرف کئی ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اس آڈیو کو عدالت میں بطور شواہد پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول ماضی میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی اپیلوں میں جسٹس قیوم ملک کی آڈیو سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے ان کی سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

یہ آڈیو کس نے ریلیز کروائی ہے؟

ممتاز تجزیہ نگار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس حوالے سے حتمی بات تو آنے والے دنوں میں ہی سامنے آئے گی لیکن یہ بات طے ہے کہ اس ویڈیو سے حکومت، پیپلز پارٹی یا اسٹیبلشمنٹ کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے۔ اس سے فائدہ صرف نون لیگ کو ملنے کا امکان ہے اس لیے اسی کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ مسلم لیگ نون کے حامی اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد جس جوش و خروش سے تبصرے کر رہے ہیں اس سے بھی سلمان عابد کے تاثر کو تقویت مل رہی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ نون کے حامیوں کے بقول اگر اس ویڈیو کو جعلی بھی مان لیا جائے پھر بھی جو بہت سارے شواہد سیاست میں مداخلت کو ظاہر کر رہے ہیں اسے کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔

یپلز پارٹی کے رہنما قمرالزماں کائرہ نے اسی سوال کے جواب میں ڈی ڈبلیو کوبتایا کہ  یہ بات تو طے ہے کہ جسٹس (ر)ثاقب نثار نے یہ ویڈیو خود ریکارڈ کرکے ریلیز نہیں کی ہے اس لیے یہ ویڈیو یا تو دوسری طرف بات سننے والے نے ریکارڈ کی ہے یا پھر درمیان میں باہر بیٹھ کر یہ گفتگو سننے والے نے اسے ریکارڈ کیا ہوگا۔ باہر بیٹھ کر فون کی ریکارڈنگ کون کرتا ہے اس بارے میں ہم سب جانتے ہیں لیکن اصل صورتحال تحقیقات کے بعد ہی سامنے آ سکے گی۔

کیا مسلم لیگ نون کے اسٹیبلشمنٹ سے پس پردہ رابطے ختم ہو گئے؟

پاکستان میں کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس آڈیو لیک سے جہاں عدلیہ کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگے ہیں وہاں اس سے  پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے تاثر کو بھی تقویت ملی ہے۔ ان کے مطابق اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ایک حالیہ  تقرری کے معاملے پر وزیر اعظم عمران خان  سے خفا ہونے والے طاقتور حلقوں کے ساتھ مبینہ طور پر نون لیگ کے جو پس پردہ رابطے بحال ہوئے تھے وہ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گئے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کی برسی کے موقعے پر لاہور میں منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب میں نواز شریف نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے بھی ان کی مایوسی جھلکتی ہے۔ سلمان عابد کہتے ہیں کہ ایسے کوئی رابطے نہیں تھے ۔ صرف شہباز شریف ریلیف حاصل کرنے کے لئے اس طرح کے رابطوں کا تاثر دیتے تھے۔ اگر کوئی ایسا رابطہ تھا بھی تو اب اس کے برقرار رہنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

اس آڈیولیک کے پاکستانی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے؟

سیاسی مبصرین کے خیال میں اس آڈیو کا پاکستانی سیاست پر اثر ضرور ہوگا، اس کے حوالے سے ہونے والے پراپیگنڈے سے رائے عامہ کو اپنے اپنے حق میں موڑنے کی کوشش ہو سکتی ہے، اس آڈیو لیک سے اداروں خصوصاً عدلیہ پر دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمرالزماں کائرہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس آڈیو لیک سے صورت حال کافی پیچیدہ ہو گئی ہے جو کہ پاکستان میں ریاستی اسٹرکچر کی کمزوری کو ظاہر کر رہی ہے، اس ویڈیو کے سامنے آنے سے موجودہ حکومت کا جواز مزید کمزور ہو گیا ہے۔ اگر سیاسی معاملات میں ماضی کی طرح کی مداخلت نہ روکی جا سکی تو پھر ملک کے حالات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔

سلمان عابد کہتے ہیں کہ پاکستان میں اگلے انتخابات کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ ہر کوئی مستقبل کی حکومت میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے سارے حربے آزما رہا ہے۔ سیاست میں ابھی کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہے اگر حالات خراب ہوئے تو عام انتخابات اگلے سال ہو سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں