تاجر رہنماؤں کی معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں ناکامی پر حکومت پر تنقید

بزنس مین گروپ (بی ایم جی) کی اعلیٰ قیادت نے معاشی صورتحال پر اظہار تشویش کرتے ہوئے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے سربراہ کے اس خدشے کو مسترد کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان، سری لنکا جیسے معاشی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایف پی سی سی آئی کے صدر عرفان اقبال شیخ کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں گراوٹ اس مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں یہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی ہے جبکہ پیٹرولیم درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) انٹر بینک ریٹ سے کہیں زیادہ ریٹ پر کھولی جارہی ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ہم سری لنکا جیسی صورتحال سے زیادہ دور نہیں ہیں اور اس خوفناک منظر نامے سے بچنے کے لیے ہمیں اہم بنیادی فیصلوں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نقل و حمل اور بجلی کی پیداوار کے لیے ایندھن کی قلت کی صورت میں امن و امان کی سنگین صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ درآمد کنندگان ڈالر کے حصول کے لیے تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو پیٹرول کا بحران پیدا ہو جائے گا جبکہ بینک، ایک ڈالر کے لیے 242 روپے میں لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کھول رہے ہیں۔

حکومت کی غیر سنجیدگی پر روشنی ڈالتے ہوئے عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ حکومت نے ابھی تک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا گورنر مقرر نہیں کیا جبکہ قائم مقام اسٹیٹ بینک سربراہ، ایف پی سی سی آئی کے رہنماؤں سے ملنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

انہوں نے کہا کہ اس تمام صورتحال کے نتیجے میں کمرشل بینک شرح تبادلہ کے بارے میں قیاس آرائیوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جو کہ 245 روپے میں ڈالر کی فارورڈ خریداری سے ظاہر ہے۔

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ آئندہ 48 گھنٹوں میں اسٹیٹ بینک کا مستقل گورنر مقرر کرے اور اگلے 15 روز کے لیے روپے اور ڈالر کے ریٹ کو بھی طے کرے تاکہ سنگین معاشی بحران سے بچا جاسکے۔

موجودہ معاشی بحران پر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) میں تمام معاشی شعبوں کی نمائندگی کرنے والے اہم اسٹیک ہولڈرز کے ایس او ایس اجلاس کی صدارت کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی ایم جی کے چیئرمین زبیر موتی والا نے سری لنکا جیسے بحران کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان 22 کروڑ لوگوں کی سرزمین اور زرعی ملک ہے جس کے اپنے مختلف عناصر ترکیبی ہیں۔

صنعت و تجارت کے 50 سے زائد نمائندوں میں ممتاز کاروباری شخصیات محمد علی ٹبہ، عقیل کریم ڈھیڈھی اور علی جمیل شامل تھے، انہوں نے ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت کو بحال کرنے کے لیے قابل عمل حل تلاش کرنے کے لیے منعقد کیے گئے فکری اجلاس میں شرکت کی۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر معاشی ایمرجنسی نافذ کی جائے اور کم از کم ایک ماہ کے لیے ڈالر کا ریٹ فکس کیا جائے۔

زبیر موتی والا اور کے سی سی آئی کے صدر محمد ادریس نے معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت کے غیر سنجیدہ رویے، ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی غیر یقینی صورتحال، ملکی کرنسی کی قدر میں زبردست کمی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے غیر مؤثر کردار اور بینکوں کی بغیر ریگولیشن کے منافع خوری پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ مرکزی بینک کے معاملات کو چلانے کے لیے اسٹیٹ بینک کا گورنر جلد از جلد تعینات کیا جائے۔

زبیر موتی والا نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ایکسچینج ریٹ کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے صنعتیں اپنی مصنوعات کی فروخت کی قیمت اور مینوفیکچرنگ لاگت کا تعین کرنے سے قاصر ہیں۔

محمد ادریس نے کہا کہ درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے خام مال کی درآمد پر پابندی کے فیصلے پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس پابندی کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اس سے پیداواری عمل رک جائے گا جس کے نتیجے میں برآمدات میں کمی آئے گی۔

دوسری جانب، حیدر آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عدیل صدیقی نے ایک بیان میں وزیر اعظم شہباز شریف پر زور دیا کہ وہ بغیر کسی تاخیر کے معاشی ایمرجنسی نافذ کریں اور زرمبادلہ کے بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کریں۔

انہوں نے کہا کہ سری لنکا جیسا معاشی بحران پاکستان کے سامنے ہے، افسوس کا مقام ہے کہ وفاقی حکومت نے ابھی تک اسٹیٹ بینک کے گورنر کا تقرر نہیں کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں