بھارت کی نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ نے گیارہویں جماعت کے نصاب سے بھارت کے پہلے وزیر تعلیم اور جدو جہدِ آزادی کے رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کا حوالہ حذف کردیا۔
اس سے قبل نصاب سے یہ حوالہ نکال دیا گیا تھا کہ کس طرح آزادی کے ہیرو مہاتما گاندھی کی ہندو مسلم اتحاد کی کوشش نے کچھ ہندو انتہا پسندوں کو ناراض کیا جو ان کے قتل کا باعث بنا۔
گیارہویں جماعت کی سیاسیات کی کتاب کے پہلے باب کا عنوان ’آئین – کیوں اور کیسے‘ ہے، جس میں ایک سطرکی ترمیم کر کے مولانا ابوالکلام آزاد کا نام دستور ساز اسمبلی کی کمیٹی کے اجلاسوں کے شرکا سے نکال دیا گیا۔
نظرثانی شدہ سطر میں اب لکھا ہے کہ ’عام طور پر جواہر لال نہرو، راجندر پرساد، سردار پٹیل یا بی آر امبیڈکر ان کمیٹیوں کی صدارت کرتے تھے‘۔
خیال رہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے 1946 میں اس وقت ایک اہم کردار ادا کیا، جب انہوں نے آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے متحدہ ہندوستان کی نئی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات میں کانگریس پارٹی کی قیادت کی تھی۔
اس کے علاوہ انہوں نے کانگریس کے صدر کی حیثیت سے اپنے چھٹے سال میں برطانوی کیبنٹ مشن کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک وفد کی قیادت بھی کی تھی۔
گزشتہ برس اقلیتی امور کی وزارت نے 2009 میں شروع کی جانے والی مولانا ابوالکلام آزاد فیلو شپ کو بند کر دیا تھا جس کے تحت 6 اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کو 5 سال کے لیے مالی امداد فراہم کی جاتی تھی۔
اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے نیشنل کانگریس پارٹی نے کہا کہ بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) بھارت کے پہلے وزیر تعلیم اور بھارت کے سب سے اعلیٰ شہری اعزاز بھارت رتنا پانے والے مولانا ابوالکلام آزاد کا نام تاریخ سے اس لیے مٹانے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ وہ مسلمان تھے
پارٹی کے ایک ترجمان نے کہا کہ بی جے پی حکومت نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ کا استعمال کر رہی ہے تاکہ مولانا ابوالکلام آزاد کی شناخت اور بھارت کے تعلیمی نظام سے ان کی شاندار خدمات کو نکال دیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کونسل حکومت کے ماتحت ہے جس کی قیادت بی جے پی کرتی ہے اور اس لیے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ کیا وہ بھارت کے پہلے وزیر تعلیم کا نام ان کے مذہب کی وجہ سے مٹانا چاہتے ہیں؟
اس سے قبل کونسل سے 2022 میں بارہویں جماعت کی 2 نصابی کتابوں سے گجرات فسادات کا حوالہ بھی حذف کیا تھا جس کے چند ماہ بعد ان فسادات کا ذکر گیارہویں جماعت کی عمرانیات کی کتاب سے بھی نکال دیا گیا تھا۔
گزشتہ برس ’نصاب کو معقول بنانے‘ کی مشق کے کے طور پر کونسل نے ’دہرائی‘ اور ’غیر متعلقہ‘ ٹھہراتے ہوئے گجرات کے فسادات، مغلیہ درباروں، ایمرجنسی، سرد جنگ، نکسالی تحریک سے متعلق اسباق کو نصابی کتب سے خارج کردیا تھا۔
مزید یہ کہ اسی نصابی کتاب سے مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کے حوالے بھی حذف کر دیے گئے ہیں۔
جو سطر حذف کی گئی تھی اس میں لکھا تھا کہ کشمیر کا بھارتی یونین سے الحاق آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت اس کی خودمختاری کے تحفظ کے عزم پر مبنی تھا’۔
خیال رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے یکطرفہ اقدام اٹھاتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا تھا، جس سے مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم ہو گئی تھی۔
اس اقدام کے دو ماہ بعد اکتوبر 2019 میں مقبوضہ کشمیر ریاست کو دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔